ہمارے ہاں ایڈمنسٹریشن کے مسائل ہیں، جسٹس منصور علی شاہ

پیر 16 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں 7 سال میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا، کلائمٹ ڈپلومیسی پر جلد کام کرنے کی ضرورت ہے، باکو میں حکومت نے اچھی کوشش کی۔

لاہور میں ایک تقریب سے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کلائمٹ فنانس امید کی کرن ہوگا، یہ لوگوں کو سیکیورٹی اور کلائمٹ جسٹس دے گا، یہ بنیادی طور پر انسانی حق ہے، آئینی اعتبار سے بھی انسانی حقوق کے لیے کلائمیٹ فنانس کی طرف جانا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے ہاں ایڈمنسٹریشن کے مسائل ہیں، باکو میں حکومت نے اچھی کوشش کی، کلائمٹ ڈپلومیسی پر جلد کام کرنے کی ضرورت ہے، ابھی لگتا ہے کہ حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں،

انہوں نے کہا کہ ہم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، 2017 میں قانون بنا، ابھی تک اتھارٹی نہیں بنی، ہوسکتا ہے جلد بن جائے، 2017 ایکٹ کے مطابق فنڈ بننا تھا، بجٹ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا، اب ہم سوموٹو نہیں لے سکتے، موسمیاتی ایمرجنسی کے لیے مربوط حکمت عملی بنانا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں موسمیاتی تبدیلی پر کیا دلائل دیے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتوں نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہدایات جاری کیں لیکن گراؤنڈ پر کچھ نہ ہوا، عدالتیں سمجھتی ہیں کہ کلائمیٹ فنانس کو بنیادی حق سمجھنا ہوگا، پاکستان کو موسمیاتی ایمرجنسی کا سامنا ہے، پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے اثرانداز ہے۔

انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں انڈسٹریز کو بند کرنے سے لیکر دیگر عوامل پر بات کی گئی، عملدرآمد کون کرے گا، اس پر بات نہیں ہوئی، کلائمیٹ فنانس پر بھی بات نہیں ہوئی، نیچر فنانس کے بغیر موسمیاتی ایمرجنسی سے لڑا نہیں جاسکتا، فوڈ سیکیورٹی، ڈیزاسٹر منیجمنٹ ، واٹر سیکیورٹی ، دیگر عوامل پر غور کی ضرورت ہے، اربن پلاننگ ، ایگریکلچرل پلاننگ پر بات کرنا ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp