قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرار دار میں قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایوان پارلیمان کے قانون سازی کا مسلمہ دستوری اختیار سلب کرنے کی سپریم کورٹ آف پاکستان کی جارحانہ کوشش کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں واضح کرتا ہے کہ یہ اختیار سلب کیاجاسکتا اور نہ ہی اس میں مداخلت کی جاسکتی ہے۔
ایوان افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے 50 سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات کے دوران ریاست کے ایک عضو (Organ of the State) نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جو خود آئین کے اندر ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔ آئین میں ریاست کے اختیارات تین اداروں مقننہ (Legislature)، انتظامیہ (Executive) اور عدلیہ (Judiciary)میں منقسم ہیں اور کوئی ادارہ دوسرے کے امور میں مداخلت کا مجاز نہیں ہے۔
یہ ایوان واضح کرتا ہے کہ بجٹ ، مالیاتی بل، اقتصادی معاملات اور وسائل کے اجرا سے متعلق منظوری دینے یا نہ دینے کا تمام تر اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، جیسا کہ آئین میں درج ہے۔ کوئی ادارہ پارلیمنٹ کے اس اختیار کو چھین نہیں سکتا اور نہ ہی معطل یا منسوخ کرسکتا ہے۔ ایسا کرنا آئین پاکستان کے بنیادی تصور کی خلاف ورزی اور دستور کی عمارت ڈھانے کے مترادف ہے۔
یہ ایوان شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ) بل مجریہ 2023 کو وجود میں آنے، آئینی و قانونی عمل کے نتیجے میں تکمیل پانے اور نافذ العمل ہونے سے پہلے ہی ایک متنازع و یک طرفہ آٹھ رکنی بینچ میں زیر سماعت لاکر پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ خلاف آئین و قانون روایت نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ منطق اور عدالتی طریقہ کار کے بھی سراسر برعکس ہے۔ یہ عمل بذات خود بلاجواز عجلت کا ثبوت ہے لہذا اسے آئین، قانون اور انصاف کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق جائز حکم یا فیصلہ تسلیم نہیں کیاجاسکتا ۔ لہذا اسے مسترد کرتا ہے۔
ایوان وفاقی حکومت کو ہدایت کرتا ہے کہ اس سنگین آئینی خلاف ورزی کا بغور جائزہ لے کر اس کی درستگی کے لیے آئین اور قانون کے مطابق اقدامات کرے۔

ایوان میں منظور ہونے ہونے والی ایک اور قرار داد میں قرار دیا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالتی روایات سے ماورا اور خلاف قانون وضابطہ نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے فنڈز جمع کرنے کاآغاز کیا تھا اور مورخہ 10 جولائی 2018 کو’سپریم کورٹ آف پاکستان کا دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈ‘ قائم ہوا تھا۔
اخبار کی خبر کے مطابق جنوری 2023 میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کو آگاہ کیاگیا تھا کہ ڈیم فنڈ میں 16.53 ارب روپے موجود ہیں جو اگلی سہ ماہی میں بڑھ کر 16.98 ارب روپے ہوجائیں گے۔
یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ ڈیم فنڈ میں جمع ہونے والی یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے اور یہ وسائل 2022 کے تباہ کن سیلاب کے متاثرین کی مدداور بحالی کے لئے بروئے کار لائے جائیں۔














