روس میں مفرور شام کے سابق صدر بشار الاسد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے شام میں حکومت کا تختہ الٹنے والے حیات تحریر الشام کے انقلابی جنگجوؤں کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن روس نے انہیں وہاں سے زبردستی نکال کر ماسکو پہنچا دیا۔
یہ بھی پڑھیں:بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ، نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا کہا؟
شام کے ’سقوط‘ کے بعد پہلی بار پیر کو شامی پریزیڈنسی ٹیلی گرام چینل کے ذریعے خاموشی توڑتے ہوئے شام کے مفرور صدر بشار الاسد نے کہا کہ وہ شام چھوڑنا نہیں چاہتے تھے بلکہ شام کی حکومت مخالف حیات تحریر الشام کے جنگجوؤں کے خلاف لڑائی جاری رکھنا چاہتے تھے۔
واضح رہے کہ شام کی حکومت 8 دسمبر کو جنگجوؤں کے قبضے میں چلی گئی تھی اور صدر بشار الاسد ایک روسی طیارے میں ’فرار‘ہو گئے تھے۔ تاہم مفرور شامی صدر کا پیر کو پہلی بار بیان منظر عام پر آیا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے لڑائی جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ماسکو نے انہیں وہاں سے نکال لیا۔
مزید پڑھیں:بشار الاسد کو شکست دینے والے ابو محمد الجولانی کون ہیں؟
مفرور شامی صدر بشاالاسد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ملک اب ’دہشتگردوں کے ہاتھوں‘میں چلا گیا ہے، شامی جنگجوؤں کی جانب سے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں انہوں نے کہا کہ روسیوں نے ان کی فوجی تنصیبات پر حملے کے بعد انہیں وہاں سے نکال لیا۔
شام کے مفرور صدر نے مزید کہا کہ جنگجوؤں کے دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد وہ 8 دسمبر کی صبح دمشق سے فرار ہو گئے تھے۔ انہیں ابتدائی طور پر لاتاکیا صوبے میں روسی فوجی تنصیب پر منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کا کہنا تھا کہ یہاں سے وہ اپنے روسی اتحادیوں کے ساتھ مزاحمت جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان واقعات کے دوران میں نے کسی بھی موقع پر عہدہ چھوڑنے یا پناہ لینے پر غور نہیں کیا اور نہ ہی کسی فرد یا پارٹی کی طرف سے ایسی تجویز پیش کی گئی تھی۔ بشارالاسد نے کہا کہ ان کے لیے واحد راستہ جنگجوؤں کے حملوں کے خلاف لڑائی جاری رکھنا تھا۔