کل ( اٹھارہ دسمبر ) عالمی یومِ مہاجرت ہے۔ اسی دن انیس سو نوے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تارکینِ وطن کے تحفظ اور حقوق کے کنونشن کی منظوری دی۔ اس کنونشن میں وضاحت کی گئی کہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر مجریہ انیس سو اڑتالیس کے تحت کسی بھی سبب ہجرت کرنے والوں اور دیارِ غیر میں پناہ کے متلاشیوں کے وہی حقوق ہیں جو کسی بھی انسان کو قدرت نے عطا کیے ہیں اور ان کا احترام اور تعاون فرد سے ریاست تک سب پر واجب ہے۔
اس تناظر میں مسلمان ممالک پر بطورِ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس ذمہ داری کا روشن نمونہ خود نبیِ کریم ہیں جنہیں بہ امرِ مجبوری مکہ سے مدینہ ہجرت کرنا پڑی اور اہلِ مدینہ نے رسولِ اکرم ﷺ اور صحابہِ کرام پر اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے کھول دئیے۔
پناہ گزینوں اور مہاجروں کے حقوق کے لیے بیسیوں چھوٹی بڑی تنظیمیں ہیں۔ مگر تین عالمی ادارے زیادہ نمایاں ہیں۔اقوامِ متحدہ کا ہائی کمیشن برائے پناہ گزیناں ( یو این ایچ سی آر )، انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن ( آئی او ایم ) اور فلسطینی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرنے والا ادارہ انرا کہ جسے اسرائیل نے اپنی حدود میں غیر قانونی قرار دینے کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں انرا کے اسکولوں، صحت اور امداد کے مراکز کو تاک تاک کے تباہ کیا کیونکہ انرا چھہتر برس سے لگ بھگ ساٹھ لاکھ بے خانماں و نادار فلسطینیوں کی لائف لائن ہے۔
یہ دنیا خود کو جس قدر مہذب سمجھ رہی ہے، اتنی ہی سفاکی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا کی ساڑھے تین فیصد آبادی ( دو سو اکیاسی ملین ) معاشی، سیاسی، ماحولیاتی وجوہات یا بےامنی و بے روزگاری کے سبب پردیسی ہے۔ یہ تعداد کسی بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ ان تارکینِ وطن میں اڑتالیس فیصد خواتین اور بچیاں ہیں۔ ان پناہ گزینوں میں اکتالیس فیصد کی عمر بیس برس سے کم ہے جبکہ اپنے ہی وطن میں دربدروں کی تعداد تقریباً اکہتر ملین ہے۔
ان تارکین وطن میں سے اکتیس فیصد ایشیا اور یورپ میں، اکیس فیصد شمالی امریکا، نو فیصد افریقہ، پانچ فیصد لاطینی امریکا و کیربئین اور تین فیصد آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں محفوظ جانی، سماجی و معاشی مستقبل کی تلاش میں پہنچے ہیں۔
جو تارکینِ وطن بنا سفری دستاویزات انسانی اسمگلروں کی مدد سے ترقی یافتہ ممالک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے لیے دو راستے سب سے خونی کہلاتے ہیں۔ ایک شمالی افریقہ اور یورپ کے درمیان حائل بحیرہ روم جس نے پچھلے دس برس میں پچیس ہزار انسان نگل لیے۔ دوسرا روٹ میکسیکو کے راستے امریکا میں داخلے کا ہے جسے زیادہ تر لاطینی و وسطی امریکا کے شہری استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ ایک چوتھائی لوگ راستے میں ہی اندھے جنگلات و مسلح جرائم پیشہ گروہوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ایک تاثر یہ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ ہر پناہ گزیں میزبان ملک پر بوجھ ہوتا ہے۔ اس تاثر کے رد میں سب سے بڑی مثال امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کی ہے جنہیں تارکینِ وطن نے ہی اس مقام تک پہنچایا جس پر یہ آج اتنا اتراتے ہیں جبکہ تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کو انیس سو ساٹھ کی دہائی سے اب تک انہی تارکینِ وطن نے تعمیر کیا اور کر رہے ہیں۔
فرانس اور نیدرلینڈز کی شہرہ آفاق فٹ بال ٹیموں میں آپ کو گوروں سے زیادہ کالے اور گندمی چہرے نظر آئیں گے مگر انتہائی دائیں بازو کے نسل پرستوں کا سیاسی روزگار انہی تارکینِ وطن کو بوجھ ثابت کرنے کی مہم سے وابستہ ہے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو ایک جانب لاکھوں افغان باشندے جان و مال کے تحفظ کے ڈر سے یہاں پناہ گزین ہیں جبکہ لاکھوں پاکستانی محدود معاشی مواقع کے سبب قانونی و غیر قانونی طریقوں سے خلیجی ریاستوں اور مغربی ممالک تک پہنچنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ یہی لوگ پاکستان کو لگ بھگ تیس بلین ڈالر سالانہ زرِ مبادلہ فراہم کر کے اسے اپنے پیروں پر بھی کھڑا رکھتے ہیں۔
لاہور اسکول آف اکنامکس کے تارکینِ وطن سے متعلق تحقیقی مرکز ( سمراڈ ) کی جون میں شائع ہونے والی جامع رپورٹ کے مطابق پاکستان سے روزگار کی تلاش میں جو لوگ عارضی یا مستقل ہجرت کر رہے ہیں، ان میں چھپن فیصد غیر ہنرمند یا نیم ہنرمند کارکن ہیں۔ یہ زیادہ تر امارات اور سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں مگر بدلتے وقت میں غیر ہنرمند کارکنوں کی مانگ میں مسلسل کمی اور ہنرمندی کی مانگ ہر سال بڑھ رہی ہے۔ تاہم ہنرمندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر معیاری تعلیمی و تربیتی سہولتیں ہیں۔
صرف آٹھ فیصد مہاجر وہ لوگ ہیں جن کا تعلق اعلیٰ ہنرمند کیٹگری ( ڈاکٹر، انجینیر، مینیجر، آئی ٹی ماہرین، اساتذہ وغیرہ ) سے ہے جبکہ تلاشِ معاش میں ہجرت کرنے والی پاکستانی خواتین کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے اور ان میں سے بھی اکثر کا تعلق طبی شعبوں سے ہے۔ ہنرمند افراد کی پہلی ترجیح مغربی ممالک اور دوسری ترجیح خلیجی ریاستیں ہیں۔
پاکستان ان دس چوٹی کے ممالک میں بھی شامل ہے جہاں سے سب سے زیادہ غیرقانونی نقلِ مکانی ہوتی ہے ۔اس وقت یورپ میں اندازاً پینتالیس ہزار غیر قانونی پاکستانی تارکینِ وطن ہیں۔جو پاکستانی سیاسی و مذہی و نسلی بنیادوں پر پناہ کی درخواست دیتے ہیں ان میں سے صرف پندرہ فیصد کامیاب ہوتے ہیں۔تئیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں ہیں۔
گزشتہ برس پاکستان سے تقریباً آٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار شہری روزگار، تعلیم اور پناہ کی تلاش میں بیرونِ ملک گئے۔ اس سے میڈیا میں یہ تاثر ابھرا گویا پورا ملک آمادہ بہ ہجرت ہے اور جسے موقع مل رہا ہے بھاگ رہا ہے۔ جبکہ انیس سو اکہتر سے اب تک آبادی میں اضافے اور نقلِ مکانی کی شرح کے تحقیقی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ سالانہ ہجرتی اوسط کم و بیش ایک جیسی ہی ہے۔ سوائے دو ہزار پندرہ، جب تقریباً ساڑھے نو لاکھ پاکستانی بیرونِ ملک گئے۔
اگر پاکستان کو مستقل چھوڑنے والوں کا تناسب دیکھا جائے تو اس کیٹگری میں پچاس لاکھ پاکستانی آتے ہیں جنہوں نے زیادہ تر یورپ، امریکا اور آسٹریلیا وغیرہ کو اپنا لیا۔ اب اس تعداد کی موجودہ چوبیس کروڑ آبادی پر جمع تفریق کی جائے تو اتنی اوسط تعداد پھر بھی نہیں بنتی جس کی بنا پر سر پکڑ کے بیٹھ جایا جائے کہ پاکستان ہنرمندوں اور پڑھے لکھوں سے خالی ہو رہا ہے۔
گزشتہ پچاس برس میں جتنے بھی لوگ روزگار کی تلاش میں ملک سے گئے ان میں سے اکثر واپس آ گئے اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسل ان کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔
اصل المیہ ان لوگوں کا ہے جنہیں جنگوں، ماحولیاتی ابتری اور نسلی و مذہبی نفرت و تفریق کی بنا پر عزت اور جان بچانے کے لیے جبراً نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ اس کیٹگری میں برمی روہنگیا، افغان، شامی، فلسطینی باشندے اور صومالیہ، سوڈان، کانگو اور یوکرین جیسے ممالک کے لوگ سرِفہرست ہیں۔ عالمی یومِ ہجرت دراصل ایسے ہی جبری پناہ گزینوں کے مسائل اور حقوق اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے ۔
در بدری کا ہمیں طعنہ نہ دے اے چشمِ غزال
دیکھ وہ خواب کہ جس کے لیے گھر سے نکلے
( امید فاضلی )
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













