سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائیکورٹ میں ججز تعیناتی کے لیے جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں رولز میکنگ کمیٹی نے 13 صفحات پر مبنی رولز کا مسودہ تیار کرکے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وکلا اور عام لوگ ان رولز کے بارے میں اپنی رائے دے سکتے ہیں اور لوگوں کی رائے کو 21 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں دیکھا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتیاں، رولز میکنگ کمیٹی نے ڈرافٹ تیار کرلیا
رپورٹ کے شروع میں ججز تعیناتی کی منظوری دینے والے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے سیکریٹریٹ کے بارے میں بات کی گئی ہے لیکن اس سے آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ فیڈرل شریعت کورٹ کے ججز کی تعیناتی کس طرح سے ہوگی۔
13 صفحات پر مشتمل مسودے میں لکھا ہے کہ ججز کی تقرری کے لیے میرٹ پروفیشنل کوالیفیکیشن، قانونی پر عبور، صلاحیت پر مشتمل ہوگا، ججز کے لیے میرٹ میں امیدوار کی ساکھ اور دباؤ سے آزاد ہونا بھی شامل ہوگا، جبکہ ججز کے لیے نامزدگیوں میں وکلا اور سیشن ججز کی مناسب نمائندگی ہونی چاہیے۔
مسودے کے مطابق سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے تمام ہائی کورٹس کی مناسب نمائندگی یقینی بنائی جائے، سپریم کورٹ میں تعیناتی ہائی کورٹس کے 5 سینیئر ترین ججز میں سے ہونی چاہیے، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری 3 سینیئر ترین ججز میں سے ہوگی۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں تمام ناموں پر غور کرنےکے بعد ووٹنگ کا عمل شروع ہوگا، جوڈیشل کمیشن کے 2010 کے رولز ختم کردیے گئے ہیں۔
ججز کی تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار
13 صفحات پر مبنی رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ جب بھی اعلیٰ عدلیہ میں کسی جج کو تعیناتی کے لیے نامزد کیا جائے گا، تو کمیشن اس شخصیت سے متعلق کم از کم دو سول انٹیلی جنس ایجنسیوں سے اُس شخصیت کے بیک گراؤنڈ کے بارے معلومات لے گا۔ اگر کسی بھی نامزد کردہ جج کے بارے میں بُرے تاثرات سامنے آتے ہیں تو ایسے تاثرات دینے والا افسر ان تاثرات پر اپنے نام اور عہدے کے ساتھ دستخط کرےگا۔
یہ بھی پڑھیں جسٹس منصورعلی شاہ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پرتحفظات، جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ دیا
’تعیناتی کا فیصلہ ووٹ سے‘
مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ ججز کی حتمی تعیناتی کا فیصلہ جوڈیشل کمیشن اراکین کے اکثریتی ووٹ سے کیا جائے گا اور جوڈیشل کمیشن کی تمام کارروائی کو خفیہ رکھا جائے گا یہاں تک کہ جوڈیشل کمیشن خود اس کارروائی کو پبلک کرنے کی اجازت نہ دے۔













