بائیڈن کا کپتان کو فون نہ کرنا پی ٹی آئی کی چھیڑ بن گیا تھا ۔ شاید اسی سے چڑ کر پی ٹی آئی نے ٹرمپ سے امید باندھ لی تھی۔ ٹرمپ آئے گی عمران خان کو چھڑائے گی۔ تخت پر بٹھائے گی اور کپتان پھر جرمنی جاپان کو ملانے لگ جائے گا۔ ٹرمپ نے رچرڈ گرینل کو اپنا صدارتی ایلچی بنا دیا ہے۔ یہ وینزویلا شمالی کوریا اور بلقان کے علاقوں میں سفارتکاری کریں گے۔
رچرڈ گرینل سابق سفارتکار ہیں۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں انہیں نیشنل انٹیلی جنس کا قائم مقام ڈائرکٹر بھی بنایا گیا تھا۔ یہ اس عہدے پر پہنچنے والے پہلے ہم جنس پرست تھے۔ گرینل کپتان کی رہائی کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے مشیر بننے سے پی ٹی آئی امید کا انڈا تلنے بیٹھ گئی تھی۔ درمیان میں اب یہ ہم جنس پرستی والا معاملہ آ گیا ہے۔
آپ خیبر پختونخوا میں کسی کے سامنے مولانا بجلی گھر کا نام لیں۔ اس کے بعد رچرڈ گرینل کی جنسی ترجیحات کا ذکر کریں۔ اگلا بندہ توبہ بھی کرے گا اور اس کی ہنسی بھی نہیں رکے گی۔ مولانا بجلی گھر اس تال میل پر کیا کہتے۔ یہ ان سب کو پتا ہے جو مولانا بجلی گھر کو سن چکے انہیں جانتے ہیں۔
ٹرمپ کو تو ہم نہیں جانتے، یہ بات سمجھ آتی ہے۔ ہم اپنے ملک پاکستان کو بھی نہیں جانتے۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے۔ اس کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ اس کی 25 کروڑ کی آبادی ہے جسے بزنس مین کی نظر سے دیکھیں تو یہ بہت بڑی صارف مارکیٹ ہے۔ اس ملک میں مارشل لا آئے ضرور ہیں چلتے نہیں۔ دنیا کے کئی ملک پاکستانی شہروں سے بھی چھوٹے ہیں۔
ہماری لوکیشن اہم ہے۔ ہم کئی حوالوں سے کئی خطوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس کو ملک صاحب کی زبان میں سمجھتے ہیں۔ سابق فاٹا کے ایک قبائلی ملک سے دوست نے پوچھا حاجی صاحب کام کاج کیسا ہے۔ حاجی صاحب نے جواب دیا اللہ کا شکر ہے، ایک مارکیٹ ہے اور 3 پھڈے ہیں ۔ پاکستان بھی یہی ملک صاحب ہے جو پھڈوں کو بھی خیر و برکت کا باعث سمجھتا آیا ہے۔ طاقت کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ آپ غلط بات پر اصرار کرو اور لوگ وہ مان لیں۔
ٹرمپ اپنی الیکشن مہم میں کہتا رہا ہے کہ اس کا افغانستان کا ایجنڈا نا مکمل ہے۔ وہ یہ بھی کہہ چکا ہے جو امریکا کا مذاق اڑاتے رہے ان کو سمجھائے گا۔ کپتان امریکی انخلا پر آرٹیکل لکھ چکا۔ امریکی روانگی کو غلامی کی زنجیریں توڑنے سے تعبیر کر چکا۔ امریکی ڈونلڈ لو اور راجے ریاض کی سازش سے حکومت جانے کے قصے سنا چکا۔
ٹرمپ چین مخالف ایجنڈا رکھتا ہے۔ دونوں ملکوں کی ٹریڈ وار دیوار پر لکھی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان اس سب میں ایک یونیک پوزیشن اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پہلی بار ہے کہ تنازعات سے ہم دور ہیں۔ کسی کا ساتھ نہ بھی دیں۔ صرف بیلنس رکھ سکیں تو ہمیں اچھی کاروباری ڈیل مل سکتی ہیں۔
کپتان کرنے والا کام نہیں کر رہا۔ اب اس نے اپنی سیاست کامیاب کرنے کی امید امریکا سے باندھ لی ہے۔ ادھر ایک سوال ہے کوئی بھی لیڈر کسی دوسرے ملک میں موجود قیادت سے بات کرے گا یا پہلے وہاں کی اپوزیشن کے انقلاب لانے کا انتظار کرے گا؟ چین جو پہلے شام کی سابق حکومت کا حمایتی اور قریبی دوست تھا۔ اب نئی آنے والی حکومت کے ساتھ تیزی سے تعلق بہتر بنا رہا ہے۔
عمران خان کی واپسی رہائی سیاسی آسانی کا حساب لگانے سے پہلے کچھ سوچیں۔ جنرل فیض حمید کا ٹرائل کیوں ہو رہا ہے۔ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ کپتان کی آؤٹ آف وے حمایت کرنے کی وجہ سے۔ اس حمایت کرتے ہوئے حساسیت کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جنرل فیض تو بھگتیں اور جو وجہ (کپتان) ہے وہ بچ جائے۔
کپتان کو اپنی سیاست بچانے کے لیے کئی قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔ جس کا امکان نہیں لگتا۔ پی ٹی آئی والوں کو شکر یہ کرنا چاہیے کہ مولانا بجلی گھر نہیں ہیں۔ کوئی ان جیسا بھی نہیں ہے۔ ورنہ ان کے 2، 4 جملے سارے پختونخوا میں گونج رہے ہوتے اور پی ٹی آئی کی بنیادیں ہل رہی ہوتیں۔ پی ٹی آئی والے اپنی باری سپورٹ کا غلط اندازہ کرتے ہوئے ٹرمپ سے امید لگا بیٹھے ہیں۔ انہیں اب ٹرمپ ہی ٹکرے گا۔ بس اس کا دھیان پڑنے کی دیر ہے کپتان کی پرانی باتوں پر۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔