خلیل حقانی کی موت

ہفتہ 21 دسمبر 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب سے آنکھ کھلی ہے زندگی کے دیگر مسائل اور تکالیف کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ افغانستان کے حالات بھی رہےہیں، یہ بات یقیناً خیبرپختونخوا سے باہر کے ہمارے ہم وطنوں کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہوگی مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں کے باسیوں کو ان حالات کا سامنا رہا ہے۔ روس کے خلاف شروع ہونے والی مبینہ جہاد کے بعد افغانستان کے قریبی پشتون علاقوں کے حالات بدلنا شروع ہوئے اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ پورے ملک میں پھیلا لیکن پختونخوا اور بلوچستان میں چونکہ کافی تعداد میں پشتون بستے ہیں لہٰذا ان 2 صوبوں کے باسی سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

افغانستان میں عبوری حکومت کے اہم شراکت داروں، حقانی گروپ کے مشران کا زیادہ وقت شمالی وزیرستان میں گزرا ہے، کچھ عرصہ قبل ہی حقانی گروپ کے مشران میران شاہ میں دیکھے گئے تھے جہاں وہ ان خیر خواہوں سے ملنے آئے جنہوں نے ان کی مشکلات کے دنوں میں دوستی نبھائی تھی۔ انس حقانی کے بیانات رکارڈ پر موجود ہیں کہ وہ اور ان کے بڑے وزیرستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ چند ماہ قبل مرحوم خلیل حقانی نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کی طرف سے قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہوئے تھے۔

خلیل حقانی کی موت سے افغانستان کے مستقبل پر مزید منفی اثرات پڑیں گے حالانکہ اس وقت افغان طالبان اس طرح کے کسی اختلاف کی تردید کر رہے ہیں لیکن کسی بھی تردید کے لیے ٹھوس ثبوت درکار ہوتے ہیں جو تاحال طالبان ذمہ داران کے پاس نہیں ہے۔ خلیل حقانی کے جنازے کے وقت قائم مقام تیسرے نائب وزیراعظم مولوی عبد الکبیر نے اپنی تقریر میں کہا کہ کندھار میں طالبان امیر ملا ھیبت اللہ کے سامنے خلیل حقانی نے بڑی جرت مندانہ باتیں کیں۔

بظاہر تو یہ بات معمولی نوعیت کی محسوس ہوتی ہے لیکن درحقیقت جنازے جیسے اہم موقع پر کی گئی یہ بات اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ طالبان لیڈرشپ کی اس بیٹھک کے بعد ہی خلیل حقانی نشانہ بنے تھے۔ مولوی عبد الکبیر کے بیان کے بعد طالبان کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنے والے نقادوں نے اس بیان کو اپنے تحفظات کے مطابق جامہ پہنانا شروع کر دیا ہے اس کے باوجود کہ خلیل حقانی کی موت کے حوالے سے افغان وزیر داخلہ سراج حقانی اور انس حقانی نے داعش خراسان کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

خلیل حقانی کی موت سے اگر کسی کو زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ وزیر داخلہ سراج حقانی ہے، مرحوم خلیل حقانی کو حقانی گروپ کے اندر افہام و تفہیم کا چہرہ مانا جاتا تھا اور مخالفین بھی اس بات کے قائل تھے کہ خلیل حقانی میٹھی بات کرتے ہیں اور تلخ حالات کو سنبھالنے کا فن جانتے ہیں۔

خلیل حقانی کی موت کے بعد افغان طالبان کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہورہا ہے کہ انہوں نے داعش خراسان کا صفاٰیا کردیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ داعش خراسان افغان طالبان کے صفوں کے اندر موجود ہیں کیونکہ خلیل حقانی پر حملہ کرنے والا خودکش بمبار بڑی آسانی کے ساتھ پہنچتا بھی ہے خلیل حقانی کے ساتھ با جماعت نماز بھی پڑھتا ہے اور پھر اپنی مرضی کی جگہ نشانہ بنانے میں بھی کامیاب رہتا ہے۔

خلیل حقانی کی موت کے فوری بعد افغان عبوری حکومت سے منسلک خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا کہ خلیل حقانی کے قتل میں مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہے اور بطورِ ثبوت پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں سے منسلک ایکس اکاؤنٹ کی ڈیلیٹ کردہ ٹویٹ کو پیش کیا گیا۔ ہم کسی کے دعوے کو سچا جھوٹا قرار دینے کے مجاز نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ خلیل حقانی کی موت سے پاکستان کو نقصان ہوا یا فائدہ؟

اگر اس نقطے کو نظر میں رکھ کر سوچیں گے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ خلیل حقانی کا شمار ان طالبان رہنماؤں میں ہوتا تھا جو پاکستان کے زیادہ قریب مانے جاتے تھے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں بنیادی کردار خلیل حقانی کا تھا اور حالیہ عرصے میں پاکستان سے جانے والے وفود سے دیگر طالبان رہنما ملنے سے کتراتے رہے مگر خلیل حقانی نے پاکستانی وفود کو ہر بار خوش آمدید کہا۔

پاکستان کے حوالے سے حقانی نیٹ ورک کے مشران بشمول خلیل حقانی نے کسی طرح کے متنازع بیان دینے سے گریز اختیار کیے رکھا اور خلیل حقانی پاکستان سے اچھے تعلقات کی وکالت کرتا رہا۔ خلیل حقانی کی موت کے بعد حقانی گروپ کمزور ہوا ہے اور فریق دوم کی پوزیشن مزید مظبوط ہوئی ہے۔

افغانستان میں سالوں سے چلے آرہے حالات سے متاثرہ شخص کی حیثیت سے میری شدید خواہش ہے کہ افغانستان پھر سے کسی بڑے سانحے کا شکار نہ ہو۔ البتہ خواہش یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ایک خوشگوار تبدیلی آئے جس میں خواتین کو بھی تعلیم کے حقوق میسر ہوں۔ باقی دُنیا کی طرح خواتین بھی افغان معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کریں لیکن بدقسمتی سے افغانستان میں جس طرح کا ماحول بن رہا ہے، اس ماحول کی وجہ سے ہماری یہ خواہش پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ اس وقت افغان طالبان سربراہ ملا ھیبت اللہ صاحب کے نظریات سخت تر ہوتے جا رہے ہیں اور وہ کسی طرح بھی اپنی کہی باتوں پر لچک دکھانے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے۔

جس کی وجہ سے خود ان کے قریبی ہم نظریہ ساتھی ان سے خائف نظر آ رہے ہیں، طالبان امیر کی طرف سے سخت ردعمل کو دیکھتے ہوئے ان کے قریبی ساتھیوں نے خواتین کی تعلیم کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے۔ سوائے عباس ستانکزئی کے، جو اب بھی اپنی حکومت کی خواتین کے حوالے سے اختیار کی گئی پالیسیوں پر تنقید کررہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں جب طالبان امیر کی ان سختیوں کی وجہ سے افغان عبوری حکومت کے نظام میں کمزوری بڑھے گی تب خاموشی اختیار کرنے والے بھی بات کریں گے۔

ھیبت اللہ صاحب جو اس وقت طاقت کو اپنی جھولی میں سمیٹ رہے ہیں، ایک خاص مدت تک ہی طاقتور برقرار رہ پائیں گے کیونکہ کوئی بھی سسٹم صرف طاقت کے ذریعے نہیں چل سکتا اور نہ ہی سوچ ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ دوسری طرف حقانی گروپ سے وابستہ جنگجووں کے ذہنوں میں خلیل حقانی کی موت کے حوالے سے خدشات برقرار رہیں گے جو اندرونی اختلافات کو بڑھاوا دینے کا موجب بن سکتے ہیں۔ امید ہے طالبان رہنماؤں کی ان تمام چیزوں پر نظر ہوگی اور مل جل کر آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے جو افغانستان کے مستقبل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp