سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قدیم وائرس جو لاکھوں سالوں سے انسانی ڈی این اے کے اندر چھپے ہوئے ہوں جسم کو کینسر سے لڑنے میں مدد کرتے ہیں۔
فرانسس کرک انسٹی ٹیوٹ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان پرانے وائرسسز کی غیر فعال باقیات اس وقت بیدار ہو جاتی ہیں جب کینسر کے خلیے قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔
مطالعے کے مطابق یہ وائرس غیر ارادی طور پر مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد کرتا ہے۔
سائنسدان اس مطالعے کے بعد اب ایک ایسی ویکسین کی تلاش میں ہیں جو کینسر کے علاج یا اسے روکنے میں مددگار ثابت ہو سکے۔
محققین نے پھیپھڑوں کے کینسر سے نجات حاصل کرنے کے لیے جسم کے مدافعتی نظام میں موجد بی سیلز کا بھی مطالعہ کیا ہے۔
بی سیلز ہمارے جسم کا وہ حصہ ہیں جو اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں اور کووڈ جیسے انفیکشن سے لڑنے میں بھی مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔
بایو میڈیکل ریسرچ سینٹر میں ریٹرو وائرل امیونولوجی کے سربراہ پروفیسر جارج کیسیوٹس کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم میں اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کے دوسرے حصوں کو طلب کرتی ہیں جو ’متاثرہ‘ خلیوں کو ختم کر دیتا ہے اور وائرس کو روکتا ہے۔
جریدے نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے ایک ایسی ویکسین پر کام کیا جا رہا ہے جو جسم میں موجود مدافعتی عمل کو بڑھائے اور اینڈوجینس ریٹرو وائرس (کینسز) سے لڑنے میں مدد فراہم کرے۔
کینسر ریسرچ یو کے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کلیئر بروملے نے کہا ہے کہ ہم سب کے جینز میں قدیم وائرل ڈی این اے موجود ہے جو ہمارے آباء و اجداد سے گزرا ہے اور اس دلچسپ تحقیق نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ کینسر کے خلیات کو روکنے میں کیا کردار ادا کرتا ہے اور ہمارا مدافعتی نظام کس طرح اسے تباہ کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کینسر کی ویکسین تیار کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔