حالیہ دنوں میں ملک کے سیاسی منظرنامے پر ہلچل بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ جلد از جلد مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہتی ہے اور ایک ٹائم فریم کے اندر مذاکرات کے نتائج کی متمنی ہے۔ حکومت نے مذاکراتی کمیٹی تو بنا دی ہے مگر اسے مذاکرات میں کوئی جلدی نہیں۔ فوجی عدالتوں نے 9 مئی کو تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران عمران خان کے بھانجے سمیت عسکری تنصیبات پر حملے کرنے والے 85 مجرموں کو سزائیں سنا دیں۔
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے ماہ حلف اٹھائیں گے مگر ان کے نامزد کردہ مشیر رچرڈ گرینیل پاکستانی سیاست میں متحرک نظر آرہے ہیں۔ وہ اپنی پرانی ٹوئیٹ بھی سامنے لے آئے جس میں وہ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مشکلات کی شکار تحریک انصاف کو ٹرمپ کی صورت میں ایک امید نظر آرہی کہ شاید امریکا عمران خان کی رہائی میں مدد کردے۔ تاہم ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے پاکستان کی حکومت پر زور ڈالیں گے۔
حکومت کی پریشانی بھی بڑھ گئی کہ کہیں ڈونلڈ ٹرمپ بانی تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ نہ ڈالنا شروع کردے۔ وزرا بھی سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے خلاف ٹوئیٹس کرتے نظر آ رہے ہیں جن میں وہ پارٹی پر الزامات لگا رہے ہیں انہیں بیرونی فنڈنگ اور حمایت حاصل ہے اور اس کے رہنما ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔
ادھر عمران خان نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو مشروط مذاکرات کی اجازت دینے کے ساتھ سول نافرمانی کی احتجاجی تحریک کے پہلے مرحلے میں تمام اوورسیز پاکستانیوں کو اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ترسیلات زر پاکستان بھیجنا بند کردیں۔ امریکا میں مقیم ان کے سب سے متحرک رہنما شہباز گل نے بھی سمندرپار پاکستانیوں سے گزارش کی ہے کہ وہ عمران خان کی اپیل پر فوری عمل کریں جب تک ان کہ اگلی ہدایات آنے تک یہ سلسلہ جاری رکھیں۔
عمران خان چاہتے ہیں کہ مذاکرات ان کی دی گئی ڈیڈ لائن 31 جنوری سے پہلے کسی نتیجے پر پہنچیں اور اس کے ساتھ وہ سول نافرمانی کی تحریک کے ذریعے حکومت اور اسٹیبلشمنت پر اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ ملاقاتیں بھی جاری رہیں۔ سب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی سمیت پارٹی میں کوئی ایسا رہنما نہیں جو عمران خان کی منطوری کے بغیر کسی قسم کا فیصلہ لے سکے۔
اسی طرح وہ مذاکرات کے ذریعے مقتدرہ پر دباؤ دالنا چاہتے ہیں کہ ملک میں معاشی استحکام اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان کے مطالبات مان لیے جائیں۔ ان کی طرف سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری طرف ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے عندیہ دیا ہے کہ 9 مئی واقعات کے منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور ماسٹر مائنڈ ہی نوجوانوں میں زہریلا پروپیگنڈا پھیلانے کے زمہ دار ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے رہنماؤں کو بھی عوام کے کٹہرے میں لانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے 26 نومبر کو ڈی چوک میں تحریک انصاف کے دھرنے کو ’سیاسی دہشتگردی‘ قرار دیا۔
دونوں طرف سے اعصاب کی جنگ جاری ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عمران خان جیل سے رہائی کے لیے بے چین ہو جائیں گے۔ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 85 ملزموں کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے بعد عمران خان خوفزدہ ہوگئے ہیں کہ انہیں بھی ملٹری ٹرائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان کا خیال ہے کہ حکومت انہیں زیادہ دیر تک جیل میں نہیں رکھ سکتی کیونکہ وہ جیل میں بیٹھ کر بھی سیاسی عدم استحکام پیدا کرسکتے ہیں اور سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں جیل سے بنی گالا منتقل کرنے کی ڈیل آفر کی گئی تھی مگر انہوں نے انکار کردیا۔
مذاکرات کے لیے ڈیڈ لائن دینا اور اس کے ساتھ سول نافرمانی کی تحریک کے ذریعے دباؤ ڈالنا کسی صورت بھی مذاکرات کی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی اور دوسری طرف حکومت کی طرف سے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کو نظرانداز کرنا ملکی مفاد ہرگز نہیں۔ دونوں طرف سے لچک دکھانے سے کوئی حل نکل سکتا ہے۔