منظر دل دہلا دینے والا تھا۔کوئی شقی القلب ہی اس سفاکی کا مظاہرہ کر سکتا تھا۔ کم و بیش دس سال کی عمر کے بچے کو الٹا لٹکا کے مارا جا رہا تھا۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اتنی کم عمری میں شعور کی آگاہی حاصل ہو گئی تھی۔ جبری مشقت کے خلاف بات کرنے لگ گیا تھا۔ اگر بات اسی کی حد تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا مگر وہ تو دوسروں کو ورغلا رہا تھا۔ انہیں اپنی آزادی کا احساس دلا رہا تھا۔اور یہ وہ زہر تھا جو آجروں اور سرمایہ داروں کی جڑوں کو کھوکھلا کر سکتا تھا۔
6 سو روپے کے عوض فروخت:
مریدکے میں ایسے عیسائی گھرانے میں جہاں غربت کے سوا کچھ نہیں تھا، وہاں 1983 میں اس کا جنم ہوا۔ ابھی ٹھیک سے بچپن کے رنگ بھی نہ دیکھے تھے کہ فقط 6 سو روپے قرض کی خاطر اسے چار سال کی عمر میں قالین بافی کے ایک کارخانے کے مالک کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔ معلوم نہیں اس کے ننھے ذہن میں کیا کیا خواب تھے اور وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے قالین بُن بھی سکتا تھا یا نہیں لیکن باپ کا قرض اتارنے کے لیے اسے مجبوراً کارخانے میں کام کرنا پڑا ۔
کم وبیش 6 سال تک وہ قالین بافی کی صنعت سے منسلک رہا جہاں اسے اوسطاً 14 گھنٹے کام کرنا پڑتا۔ اس کے ساتھ اور بھی کافی بچے تھے جو اسی کی طرح بچوں کی جبری مشقت کا شکار تھے۔ وہ اپنی آنکھوں میں مستقبل کے خواب بھی نہیں سجا سکتے تھے کہ انہیں شعوری آگاہی سے پہلے ہی اس جبری مشقت میں ڈال دیا گیا تھا اور اب یہی ان کی کل کائنات تھی۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ دنیا کہا ں جا رہی ہے اور ان کے حقوق کیا ہیں؟ شاید اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا لیکن فطری آزادی کی خواہش نے خوف کی چادر کو تار تار کر دیا اور اس نے فرار کی راہ اختیار کی۔ بدقسمتی سے پولیس کے ہاتھوں پکڑا گیا اور پھر سے کارخانے کے مالک کے حوالے کر دیا گیا جہاں اسے الٹا لٹکا کر بغاوت کی سزا دی گئی اور کام میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔
تاہم اب اس کی سوچ میں تغیر آچکا تھا۔ اس نے اپنی غلامی کو قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کرنے کے بجائے اس نظام سے بغاوت کی ٹھانی۔ وہ چپکے چپکے موقع کی تلاش میں رہا۔ باقی بچوں کو بھی بغاوت پہ اُکساتا رہا، لیکن شاید کسی میں بھی مار کھانے کی سکت نہ تھی کہ اُس کا ساتھ دیتا۔
دوسری بغاوت:
ایک روز موقع پا کر وہ دوبارہ بھاگ گیا۔ اس بار وہ خوش قسمتی سے چائلڈ لیبر کے خلاف سرگرم تنظیم بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ (BLLF) کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اسے پناہ دی اور اس کا پیغام دنیا تک پہنچانے میں اس کے معاون و مددگار ہوئے ۔اقبال نے BLLFکے اسکول سے چار سالہ تعلیم فقط دو سال میں ہی مکمل کر لی۔
تعلیم کے ساتھ ہی اس نے اپنی تحریک کو بھی جاری رکھا۔ مزدور بچوں کی آزادی کے لیے وہ میدان میں اتر گیا۔ اس نے تقریریں کیں اور جبری مشقت کے خلاف منظم تحریک شروع کر دی، جس کے نتیجے میں لو گ اس کی باتوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ بچوں میں جذبہ آزادی بیدار ہونا شروع ہو گیا۔ جلد ہی 3 ہزار بچے اس تحریک کے نتیجے میں آزاد کروا لیے گئے۔ان بچوں کے ہاتھوں میں اب اوزار کی بجائے قلم تھے۔ اینٹوں کے بھٹوں ،فیکٹریوں، قالین بافی کے کارخانوں غرض جہاں جہاں بچوں سے جبری مشقت کروائی جا رہی تھی، وہاں وہاں اقبال نے اپنا پیغام پہنچایا اور احتجاجی علم بلند کیا۔ آزادی کی یہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گئی۔ اگر یہ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو جبری مشقت کے خاتمے کی صورت میں سرمایہ دار کس طرح منافع کما سکیں گے؟
صورت حال اس وقت مزید مخدوش ہو گئی جب جبری مشقت کی تحریک جس کا قائد اقبال تھا، نے حکومت وقت کی توجہ حاصل کی جس کے نتیجے میں 1992 کا بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ/جبری مشقت کے خاتمے کا قانون نافذ کر دیا گیا۔گو کہ اس قانون کا عملی اطلاق اُس طریقے سے نہ ہوسکا مگر اس کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کے لیے یہ ایک شدید دھچکا تھا۔
عالمی توجہ:
BLLFکے فورم سے اقبال کی تحریک نے زور پکڑا تو عالمی اداروں کی توجہ اس تحریک پر مرکوز ہو گئی۔ دسمبر 1994ء میں اسے امریکا میں ہیومن رائٹس یوتھ ان ایکشن (Human Rights Youth in Action) ایوارڈ کے لیے دعوت دی گئی جس کا اہتمام ہر سال ریبوک فاؤنڈیشن (Reebok Foundation) کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ اس تقریب میں اقبال نے انتہائی جوشیلی تقریر کرتے ہوئے کہا:
’میں ان لاکھوں بچوں میں سے ایک ہوں جو پاکستان میں بانڈڈ اور چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ لیکن میں خوش قسمت بھی ہوں کہ BLLF کی کوششوں کی وجہ سے آج میں آزاد ہوں اور آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ اپنی رہائی کے بعد میں نے BLLFکے اسکول میں داخلہ لیا اور آج میں اس اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ ہم غلام بچوں کے لیے ، احسان اللہ اور BLLF نے وہی کام کیا جو ابراہم لنکن نے امریکی غلاموں کے لیے کیا تھا۔ آج آپ آزاد ہیں اور میں بھی آزاد ہوں۔ بد قسمتی سے ہمارے مالک نے جہاں میں کام کرتا تھا، ہمیں یہ بتایا تھا کہ بچوں کی جبری مشقت میں امریکا کا ہاتھ ہے۔ امریکی لوگ ہمارے بنائے ہوئے سستے قالین اور تولیے پسند کرتے ہیں، اس لیے وہ جبری مشقت کے حق میں ہیں۔ میں آپ سب لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بچوں کی جبری مشقت کے خلاف آواز بلند کریں کیونکہ بچوں کو چائلڈ لیبر کے اوزاروں کے بجائے قلم کی ضرورت ہے‘۔
اقبال کی باتوں نے محفل گرما دی تھی۔ دوران تقریر ہی اس نے قالین کا ایک ٹکڑا بلند کیا اور کہا:
’بچے اس کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اگر کوئی غلطی ہو تو اسی سے انہیں مارا جاتا ہے اور زخمی ہو جانے کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس تک نہیں لے جایا جاتا‘۔
اب کے اس نے ہاتھ میں قلم تھاما اور اُسے بلند کرتے ہوئے کہا :
’بچوں کو اس قالین کی نہیں بلکہ اس قلم کی ضرورت ہے جو امریکی بچوں کے پاس ہے، لیکن بد قسمتی سے بہت سے بچوں کے پاس یہ قلم نہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ لوگ BLLF کی اسی طرح مدد کریں گے جیسے انہوں نے ہماری مدد کی۔آپ کی امداد کی بدولت BLLF بہت سے بچوں کی مدد کر سکتی ہے اور ان کے ہاتھوں میں یہ قلم کوتھما سکتی ہے‘۔
اقبال مسیح نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ:
’جو کچھ مجھے یاد ہے وہ میں نے آپ کے ساتھ شیئر کیا کہ کیسے میرے ساتھ زیادتی کی جاتی رہی اور کیسے ان بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی جو وہاں کام کرتے ہیں، اور کیسے ان بچوں کی توہین کی جاتی رہی ہے اور کیسے انہیں الٹا لٹکا کے مارا جاتا رہا ہے۔ مجھے اس وقت یہ جان کر انتہائی دکھ ہوا جب میں نے امریکی بازاروں میں بانڈڈ لیبر چلڈرن کے ذریعے بنے ہوئے پاکستانی قالین دیکھے۔ میں امریکی صدر کلنٹن سے درخواست کرتا ہوں کہ ان تمام ممالک پر پابندی لگائی جائے جہاں چائلڈ لیبر کا استعمال ہوتا ہے۔ ان ممالک کی امداد میں توسیع بند کر دی جائے جو آج بھی بچوں کو جبری مشقت کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اب بچوں کو قلم کے استعمال کی اجازت مل جانی چاہیے۔اس کے ساتھ ہی میں اس اعزاز کے لیے جو مجھے دیا گیا، انتہائی مشکور ہوں‘۔
اقبال مسیح کو ریبوک ہیومن رائٹس یوتھ ان ایکشن ایوارڈ کے ساتھ ہی 15 ہزار امریکی ڈالرز کی سالانہ اسکالر شپ دی گئی۔ ساتھ ہی برینڈیز یونیورسٹی کی جانب سے اسے کالج کی عمر کو پہنچنے تک مفت تعلیم کی پیشکش کی گئی۔
آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کتنا بہادر تھا:
اقبال کی آواز اب ظلم کےایوانوں میں گونج رہی تھی۔ قالین مافیا کو اس کی سرگرمیاں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھیں۔ وہ اپنے عالمی دوروں سے واپس پاکستان پہنچا تو اسے قالین مافیا کی طرف سےدھمکیا ں ملنا شروع ہو گئیں، مگر اس نے کسی دھمکی کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھا۔
یہ اتوار کا دن تھا اور تاریخ 16 اپریل 1995ء تھی۔ مسیحی برادری ایسٹر کی خوشیاں منا رہی تھی اور اقبال اپنے آبائی علاقے میں دوستوں کے ساتھ سائیکل چلا رہا تھا جب کسی درندہ صفت شخص نے اسے گولی مار دی۔ وہ جانبر نہ ہو سکا اور اپنی حسرتیں اور حقیقی آزادی کی تمنا دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کا جنازہ اٹھا تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشکبار نہ ہو۔ کمزور ننھا سا بچہ ہمت و جوانمردی کا نمونہ منوں مٹی تلے جا سویا لیکن اپنے جیسے ہزاروں بچوں کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن کر گیا۔
اس کے قتل کے دو سال بعد دی واشنگٹن پوسٹ نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سرخی لگائی ’آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کتنا بہادر تھا‘۔ امریکی کانگریس نے اس کے اعزاز میں 2009ء میں ’اقبال مسیح ایوارڈ‘ کا اجراء کیا جو دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور افراد میں سے کسی ایک کو دیا جاتا ہے۔
تمغہ شجاعت
23 مارچ 2022ء کو صدر پاکستان جناب عارف علوی نے اقبال مسیح کی خدمات کے اعتراف میں اسے تمغہ شجاعت بعد از مرگ سے نوازا جو اس کے بھائی نے وصول کیا۔
اقبال مسیح نے جو شمع روشن کی تھی ، اس کی روشنی آج بھی جاری و ساری ہے مگر افسوس اس امر کا ہے کہ اس کا قاتل آج تک نہ پکڑا جا سکا۔ تحقیقاتی اداروں کا خیال ہے کہ اسے اسی تاجر نے قتل کروایا جس کے کارخانے سے وہ بھاگا تھا۔ 18 اپریل 1995 کے The Independentکے مطابق BLLFکے چیئرمین احسان اللہ خان نے بیان دیا ’ہم جانتے ہیں کہ اس کی موت قالین مافیا کی سازش کا نتیجہ ہے‘۔