جنگ عظیم کے دوران ریڈ کراس میں بطور ڈرائیور بھرتی ہونے کے لیے اپنی عمر سے متعلق جھوٹ بولنے والے 15 سالہ ریمنڈ البرٹ کروک عرف رے کروک کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ ایک دن دنیا کی سب سے بڑی فاسٹ فوڈ چین کا مالک بن جائے گا۔
لوگوں کو اپنی باتوں میں بہلا پھسلا کر اپنے کام نکالنے کا فن رے کروک کو خوب آتا تھا۔ وہ 1902 میں پیدا ہوا اور 1920 سے 1930 کے درمیان اس نے پیانسٹ اور سیلز مین کے طور پر کام کیا۔ 1940 میں اس نے ترقی پائی اور وہ ایک ملٹی مکسر بنانے والی کمپنی پرنس کاسل کا ڈسٹری بیوٹر بن گیا۔ یہ کمپنی ایسا ملٹی مکسر بناتی تھی جس سے ایک وقت میں پانچ شیکس بنائے جا سکتے تھے۔
کئی سال تک سب ٹھیک چلتا رہا مگر پھر مارکیٹ میں دوسری کمپنیوں کی کم قیمت مصنوعات کی دستیابی کے باعث پرنس کاسل کی سیلز میں کمی آنا شروع ہوئی۔ رے کروک اس صورتحال سے پریشان تھا۔
یہ 1954 کی بات ہے جب کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں رچرڈ اور موریس میکڈونلڈ نے اپنے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میکڈونلدڈز کے روز بروز بڑھتے کام کے پیش نظر رے کروک کو 8 ملٹی مکسرز کا آرڈر دیا۔ رے کروک اس آرڈر پر قدرے حیران تھا اور وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر وہ ایسا کون سا ریسٹورنٹ ہے جسے ایک ساتھ 8 ملٹی مکسرز کی ضرورت پیش آئی۔ ذہن میں یہی سوال لیے وہ آخر کار میکڈونلڈز ریسٹورنٹ پہنچ گیا جہاں اس کی ملاقات اس ریسٹورنٹ کے بانیوں رچرڈ اور موریس میکڈونلڈ سے ہوئی۔ رے کو میکڈونلڈز کے تخلیقی انداز اور بزنس ماڈل کو سمجھنے میں دیر نہ لگی اور اس نے میکڈونلڈ برادرز کو شیشے میں اتارتے ہوئے ان کا فرنچائز ایجنٹ بننے کی درخواست کی۔
میکڈونلڈ برادرز اور ان کا بزنس ماڈل
رچرڈ اور موریس میکڈولڈ کا تعلق ایک غریب آئرش امریکی خاندان سے تھا۔ وہ مانچسٹر، نیو ہیمپشائر میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ 1920 میں میکڈونلڈ خاندان کیلیفورنیا منتقل ہوگیا۔ یہاں آنے کے بعد دونوں بھائیوں نے کولمبیا مووی اسٹوڈیو میں خاموش فلموں کی تیاری میں بطور ورکر کام کیا۔ کم اجرت ہونے کے باعث انہوں نے یہ کام چھوڑا اور 1930 میں لاس اینجلس سے 20 کلومیٹر دور 750 سیٹر مشن تھیٹر خریدا۔ اس کاروبار میں بھی میکڈونلڈ برادرز کو نقصان اٹھانا پڑا اور آخر کار اس تھیٹر کو بیچنا پڑا۔ 1937 میں انہوں نے فوڈ بزنس میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور کیلیفورنیا میں اپنے والد کے ساتھ مل کر ہاٹ ڈاگ کا ٹھیلہ لگایا۔ یہ نفع بخش کاروبار تھا لہٰذا انہوں نے اس کاروبار کو کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور 15 اپریل 1940 میں میکڈونلڈز بار بی کیو کے نام سے دنیا کے پہلے میکڈونلڈز ریسٹورنٹ کا آغاز کیا۔
1948 میں میکڈونلڈ برادرز نے اپنے ریسٹورنٹ کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا اور اپنی مینیو لسٹ کے آئٹمز 25 سے کم کر کے نو کر دیے جس میں 15 سینٹ ہیم برگر، چیز برگر، سوفٹ ڈرنکس، دودھ، کافی، آلو کے چپس اور پائی کے سلائس شامل تھے۔ نئی تبدیلیوں میں ایک ایسا نیا اصول بھی تھا جس نے رے کروک کو متاثر کیا تھا اور وہ یہ کہ لوگ اپنی گاڑیوں سے اتر کو خود ریسٹورنٹ کے کاؤنٹر پر جا کر کھانے کا آرڈر دیتے اور کھانا وصول کرتے تھے۔ اس بزنس ماڈل نے لوگوں کے لیے آسانی پیدا کر دی تھی اور انہیں اب کھانے کے لیے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ انہیں کم قیمت اور معیاری کھانا چند لمحوں میں میسر تھا۔ جلد ہی میکڈونلڈز کے دھوم پورے کیلیفورنیا میں مچ گئی۔ نئے بزنس ماڈل کے بعد میکڈونلڈز کا سالانہ منافع ایک لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ کاروبار کی کامیابی اور مقبولیت کے پیش نظر میکڈونلڈ برادرز نے اپنے ریسٹورنٹ کی شاخیں دوسرے شہروں میں بھی کھولنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے 1952 میں فینیکس سے اس کا آغاز کیا اور 1954 میں رے کروک سے ملاقات سے قبل میکڈونلڈز کی شاخیں 20 مختلف مقامات پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھیں۔
رے اور میکڈونلڈ برادرز کی ڈیل
1954 میں میکڈونلڈ برادرز نے ہچکچاتے ہوئے رے کروک کی درخواست کو منظور کیا اور اسے میکڈونلڈ کا فرنچائز ایجنٹ بنا دیا۔ رے نے میکڈونلڈز کا نظام بہتر بنانے کے لیے نئے نئے حربے آزمائے اور کامیابی سے فرنچائزنگ چلاتا رہا۔ وہ میکڈونلڈ برادرز کو وقتاً فوقتاً نئے نئے آئیڈیاز پیش کرتا رہا۔ 1960 تک امریکا میں میکڈونلڈز کی طرز کے بے شمار فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھل چکے تھے اور رے کو اس بات کا شدید دکھ تھا کہ میکڈونلڈ برادرز اپنی فاسٹ فوڈ چین کو مزید توسیع دینے کے حق میں نہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ ایسا کرنے سے کھانے کا معیار کم ہو گا۔ رے کے مسلسل مطالبے پر آخر کار میکڈونلڈ برادرز نے اپنا فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ اور اس کے تمام حقوق اسے (رے کروک) کو صرف 27 لاکھ ڈالر میں بیچنے کی حامی بھر لی۔ یوں 1961 میں رے کروک میکڈونلڈ کا مالک بن گیا۔ کچھ مصنفین کے مطابق رے نے دونوں بھائیوں کو ریسٹورنٹ کے کل منافع کا ایک فیصد دینے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر اس نے یہ وعدہ کبھی پورا نہیں کیا۔
میکڈونلڈز کی دنیا بھر میں کامیابی
اس وقت میکڈونلڈز کی دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں 38 ہزار برانچز کامیابی سے کاروبار کر رہی ہیں جہاں دو لاکھ سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں۔۔ 2021 میں میکڈونلڈز کی کل آمدن 7.54ارب ڈالر تھی۔ رے کوراک نے میکڈونلڈز کو کامیاب ترین فوڈ چین بنانے میں ہر ممکن کردار کیا۔ یہاں تک کہ اس نے 1961 میں میکڈونلڈز ہیڈکوارٹرز کی بیسمنٹ میں ہیم برگر یونیورسٹی کا آغاز کیا جہاں نئے ککس کو ہیم برگر بنانے کی تربیت دی جاتی تھی۔ رے نے وقت کے ساتھ ساتھ میکڈونلڈز کے مینیو کو بھی بہتر سے بہتر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں لاکھوں لوگ روزانہ میکڈونلڈز کے برگرز، ڈرنکس اور فرائز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جنوری 2023 میں جاری اعدادو شمار کے مطابق میکڈونلڈز کے کل اثاثوں کی مالیت 195 ارب ڈالر ہے جو اسے دنیا کی سب سے بڑی فاسٹ فوڈ چین بناتی ہے۔
میکڈونلڈز تنقید کی زد میں
میکڈونلڈز کے برگرز اور فرائز حقیقت میں اس قدر لذیذ ہیں کہ بچوں کو ہی نہیں بلکہ بڑی عمر کے افراد کو بھی اس کی لت لگ جاتی ہےاور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس عادت سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں۔ مگر ہر کوئی اس بات کو سمجھتا ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ میکڈونلڈز کو اسی حوالے سے دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ 1980 سے شروع ہوا جب میکڈونلڈ کے ایک دلدادہ 43 سالہ امریکی تاجر دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیا۔ نوے کی دہائی میں بھی میکڈونلڈ پر تنقید کی گئی کہ اس کے اقدامات سے ماحول اور صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ ملازمین کو کم اجرت دیتا ہے۔ 2004 میں ایک فلم میکر نے ’سپر سائز می‘ کے نام سے ڈاکیومنٹری بنائی جس میں اس نے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے روزانہ میکڈونلڈ کے کھانے کھائے جس سے اس کے وزن میں روزانہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس ڈاکیومنٹری کے بعد لوگوں نے میکڈونلڈز کو لوگوں خصوصاً بچوں میں تیزی سے بڑھتے موٹاپے کا ذمہ دار قرار دیا۔ میکڈونلڈز پر تنقید کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
میکڈونلڈ برادرز اور رے اب کہاں ہیں؟
رے کو اپنی فوڈ چین فروخت کرنے کے بعد موریس اور رچرڈ میکڈونلڈ نے خاموشی سے اپنی زندگی بسر کی۔ موریس کی موت 11 دسمبر 1971 کو پام سپرنگز کیلیگورنیا میں واقع اپنے گھر میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ جب کہ رچرڈ کی موت ایک نرسنگ ہوم میں 1998 میں ہوئی۔ دونوں بھائیوں نے شادیاں کیں مگر ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں بھائیوں کو آخری وقت تک میکڈونلڈز فروخت کرنے کے اپنے فیصلے پر ملال تھا۔ رے کروک کی موت 14 جنوری 1984 کو کیلیفورنیا کے ایک ہسپتال میں حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی۔
2016 میں رے کروک کی زندگی پر مبنی ہالی ووڈ فلم ’دی فاؤنڈر‘ ریلیز کی گئی جس میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مائیکل کیٹن نے ادا کیا تھا۔ میکڈونلڈز کا آغاز اور اس کو دنیا بھر میں کامیاب بنانے میں ان تینوں شخصیات کا کردار ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ ان تینوں کی محنت اور وژن کی بدولت آج روزانہ دنیا میں لاکھوں افراد خوشی کے ذائقوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور کتنے ہی افراد کو ایک معقول روزگار میسر ہے۔