بھارت نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کی درخواست کو یکسر نظرانداز کردیا ہے، جس کے بعد کہا جارہا ہے کہ بھارت حسینہ واجد کی حوالگی پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق، گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش کے مشیر برائے خارجہ امور محمد توحید حسین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے بھارت کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا کہ عدالتی عمل کے لیے شیخ حسینہ کی حوالگی درکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عوامی لیگ نے متنازع بنا دیا، شیخ مجیب کو بابائے قوم نہیں سمجھتے، بنگلہ دیشی مشیر اطلاعات
ادھر، بھارتی وزارت خارجہ نے شیخ حسینہ کی حوالگی سے متعلق بنگلہ دیش کی درخواست موصول ہونے کی تصدیق کردی تھی تاہم بھارتی حکومت نے اس بارے میں کسی تبصرے سے گریز کیا تھا۔ بھارت میں خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو اتنی آسانی کے ساتھ بنگلہ دیش واپس نہیں بھیجا جاسکتا۔
بنگلہ دیش میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر پنک راجن چکرورتی کا کہنا ہے کہ جب فوج نے شیخ حسینہ کو ان کی حفاظت کے پیش نظر بھارت بھیجا تھا تو ان پر کوئی قانونی مقدمہ نہیں تھا، چونکہ عدالتی عمل کے لیے جرائم کے ٹھوس شواہد درکار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے شیخ حسینہ کی حوالگی ایک پیچیدہ معاملہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان حوالگی کے دو طرفہ معاہدے میں سیاسی استثنیٰ کے علاوہ تحفظ اور منصفانہ برتاؤ کی شقیں بھی رکھی گئی ہیں، جب تک یہ شرائط پوری نہیں ہوتیں، حوالگی سے انکار کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حسینہ واجد کی بھارت سے حوالگی کے لیے قانونی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھیں گے، بنگلہ دیش حکومت
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت سے تعلق رکھنے والے حکام نے کہا ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے 15 سالہ دور حکومت میں اقتدر پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے کئی بڑے جرائم کا ارتکاب کیا، ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے شیخ حسینہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ اسٹوڈنٹ لیڈر ناہید اسلام نے بھی کہا ہے کہ شیخ حسینہ پر بنگلہ دیش میں مقدمہ چلانا چاہیے اور ان کے اقدامات کے لیے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔
بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے لیے بنائے گئے انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل سے شیخ حسینہ اور ان کے متعلقین کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔ ان کے خلاف 2024 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران قتلِ عام کی منصوبہ بندی اور اپنے 15 سالہ دور اقتداد میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حسینہ واجد نے استعفیٰ دیا تھا یا نہیں؟ متنازعہ بیان نے بنگلہ دیشی صدر کو مشکل میں ڈال دیا
واضح رہے کہ رواں برس اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بنگلہ دیش سے بھارت آگئی تھیں اور اس کے بعد سے ان کا قیام نئی دہلی میں ہے۔ انہیں بھارتی حکومت نے رہائش فراہم کی ہے۔ انہوں نے تاحال اپنی حوالگی کی درخواست پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے۔