پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن عرفان صدیقی نے تصدیق کی ہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عمران خان کی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے رہائی اور مذاکرات میں اصل فیصلہ سازوں کو شامل کرنے کے نئے مطالبات سامنے آئے ہیں، پی ٹی آئی کا مؤقف تبدیل ہوتا رہا تو مذاکرات کا عمل مثبت انداز میں آگے نہیں بڑھے گا۔
اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن عرفان صدیقی نے کہا کہ کئی مہینوں کی رسہ کشی کے بعد اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی نے 23 دسمبر 2024 کو تناؤ کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جو کہ خوش آئند بات ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ابتدائی طور پر پاکستان تحریک انصاف نے صرف 2 مطالبات پیش کیے، جن میں ایک تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی دوسرا 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے مزید کہا کہ سابق حکمران جماعت نے گزشتہ ماہ مذاکرات کے پہلے دور کے دوران یقین دہانی کے باوجود حکومتی ٹیم کو مطالبات کی تحریری فہرست پیش نہیں کی۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے حالیہ بیان پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اپنے مطالبات تحریری طور پر حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ اسد قیصر کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات کے گزشتہ 2 سیشنز کے دوران حکومتی ٹیم سے کیے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
اس سے ایک روز قبل پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن قیصر نے انکشاف کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ مذاکراتی عمل میں اصل ’اسٹیک ہولڈرز‘ کو شامل کرے، انہوں نے کہا کہ ’یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ حقیقی فیصلہ سازی کے اختیارات رکھنے والے کیا سوچتے ہیں‘۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے گزشتہ 2 سیشنز میں تو یہ مطالبہ نہیں اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی اپنا مؤقف اس طرح تبدیل کرتی رہی تو مذاکرات کا عمل مثبت انداز میں آگے نہیں بڑھے گا۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ چیزیں تحریری طور پر سامنے آ جائیں تاکہ واضح ہو جائے کہ ان کے کیا کیا مطالبات ہیں، پی ٹی آئی نے دونوں میٹنگز میں اشارتاً بھی نہیں کہا کہ پہلے اسٹیک ہولڈرز سے بات کر لیں، ہم کس سے بات کرتے ہیں کس سے ضمانت لیتے ہیں یہ ہمارا دردِ سر ہے۔