کچے گھر سے پارلیمنٹ تک پہنچنے والے مفتی عبدالشکور کون تھے؟

اتوار 16 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہفتہ کے روز اسلام آباد میں خوفناک روڈ حادثے میں جاں بحق ہونے والے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مفتی عبدالشکور کی نمازِ جنازہ ان کے آبائی علاقے لکی مروت میں ادا کردی گئی۔

جنازے میں رقت آمیز مناظر دیکھے گئے ہر آنکھ اشک بار تھی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں جنازے میں شرکت کی۔ مفتی عبدالشکور کو ان کی والدہ کے پہلو میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

 

ابتدائی زندگی

مفتی عبدالشکور نے یکم جنوری 1968 کو لکی مروت کے گاؤں تاجبی خیل میں ایک قدامت پسند مذہبی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مقامی سطح پر حاصل کی اور مذہبی تعلیم کے لیے اکوڑہ خٹک کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم حقانیہ کا رخ کیا، جہاں سے 1993 میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔

مفتی عبدالشکور حیدرآباد کی مشہور شاہ ولی اللہ اکیڈمی میں بھی زیر تعلیم رہے اور وہاں سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا بعد میں 1995 میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے تخصص فی الفقہ میں سند حاصل کرنے کے بعد  1997 سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔

وہ نہ صرف پشاور بلکہ بنوں، رحیم یار خان اور دیگر شہروں میں بھی درس و تدریس کے لیے باقاعدگی سے جاتے تھے۔ سال 2002 میں وہ پشاور کے پلوسی علاقہ  کی ایک جامع مسجد کے خطیب مقرر ہوئے اور آخری وقت تک پشاور میں اپنے قیام کے دوران امامت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔

خاندانی پس منظر

مفتی عبدالشکور کی ناگہانی وفات کے بعد ان کی ایک مختصر ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو ئی ہے جس میں وہ کہتے ہیں: ’میں وہ مولوی ہوں جس کی اپنی گاڑی نہیں ہے۔ پشاور میں گھر نہیں ہے اور لکی مروت کے آبائی گھر میں ایک اینٹ بھی پکی نہیں ہے۔‘

مفتی عبدالشکور کے دوست اور پشاور کے سینئیر صحافی کاشف الدین اس کی تائید کرتے ہیں۔ کاشف الدین کے مطابق مفتی عبدالشکور ایک درویش صفت انسان تھے، جو لکی مروت کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اٹھ کر اپنی محنت اور لگن سے قومی اسمبلی پہنچے اور پھر وفاقی کابینہ کا حصہ بھی بنے۔

کاشف الدین نے وی نیوز کو بتایا کہ مفتی عبدالشکور کا تعلق ایک قدامت پسند گھرانے سے تھا۔ ان کے والد بھی مذہبی شخصیت تھے لیکن سیاست سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں تھا۔’اپنے والد اور خاندان کے دیگر افراد کے برعکس مفتی عبدالشکور اپنے دورِ طالبعلمی میں ہی جمیعت علماء اسلام کے طلبا ونگ کے رکن تھے۔

کاشف الدین کے مطابق مفتی عبدالشکور وفاقی وزیر بننے کے بعد بھی لکی مروت میں اپنے آبائی گھر میں رہتے تھے جو ایک کچا مکان ہے۔’آپ کو معلوم ہے کہ مٹی کے گھروں کو مرمت کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے جب بھی ایسی نوبت آتی تو مرمت کا کام بھی مفتی صاحب خود ہی کیا کرتے تھے۔‘

مفتی عبدالشکور کے خاندان کے دیگر افراد ابھی تک لکی مروت میں رہائش پذیر ہیں تاہم انہوں نے اپنے خاندان کو پشاور منتقل کردیا تھا، جہاں جامع مسجد کے خطیب ہونے کے ناطہ مسجد کی جانب سے خطیب کے لیے مختص شدہ گھر میں رہتے تھے۔

’باقی آپ خود اندازہ لگالیں کہ مسجد کے خطیب کا گھر کتنا بڑا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے سیاست سے دولت نہیں کمائی بلکہ خدمت کی۔ وہ سیاست کے ساتھ درس و تدریس کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے اور مختلف مدارس میں فقہ پڑھاتے بھی تھے۔‘

قدامت پسند خاندان سے پارلیمان تک کا سیاسی سفر

 مفتی عبدالشکور ایف آر لکی کے پسماندہ گاؤں میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جس کا سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے محنت اپنا لوہا منوایا۔ صحافی کاشف الدین کے مطابق مفتی عبدالشکور پارٹی میں نچلی سطح سے قومی سیاست میں آئے۔

’ان کی قابلیت اور محنت کو دیکھ سے پارٹی نے انہیں قبائل کا امیر بنایا اور انہوں نے 2018 میں تحریک انصاف کے مقابلے میں ایف آر کی سیٹ سے کامیابی حاصل کی۔ پہلے رکن پارلیمنٹ اور گزشتہ سال وفاقی وزیر بننے کے باوجود انہوں نے اپنے اہلِ خانہ کو پشاور سے اسلام آباد منتقل نہیں کیا۔

ایمبولینس میں مفتی عبدالشکور کی میت کے سرہانے ان کا اکلوتا بیٹا سوگوار بیٹھا ہے۔

صحافی کاشف الدین کے مطابق وزیر بننے کے بعد خاص طور پر حج انتظامات کی نگرانی کے باعث مفتی عبدالشکور کی دارالحکومت میں مصروفیات بڑھ گئی تھیں اور ان کا پشاور آنا کم ہو گیا تھا۔ ’اس بار حج کے لیے قرعہ اندازی نہ کرنا بھی ان کا فیصلہ تھا۔ انہوں نے بیوی، بیٹیوں، سمیت ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑا ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp