انسانی زندگی میں قانون کی نسبت سے خدا کا کوئی عمل دخل ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے جوابات کی صورت ہمارے ہاں مذہبی و غیر مذہبی تصورات اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یہاں چونکہ برٹش دور میں نظریاتی کمرشلزم کو فروغ حاصل ہوا سو دوسری جنگ عظیم کے بعد والے دور میں ان مباحث سے مالی مفادات بھی جڑ چکے۔ اور مالی مفاد ایسی چیز ہے جس کے لیے لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ یہ کوئی سربستہ راز نہیں کہ سوویت دور کا کمیونزم ہو یا آج کا لبرلزم دونوں نے تیسری دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے فنڈز کا سہارا لیا۔ اسی طرح ان کی مزاحمت کے لیے بھی جتنی مذہبی تحریکیں وجود میں آئیں انہوں نے بھی عوامی فنڈنگ کا ہی سہارا لیا۔
فنڈنگ کی یہ اسکیم شروع بہت معصومیت کے ساتھ ہوتی ہے۔ کہنے والا کہتا ہے، ہم فلاں عظیم مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کر نہیں پارہے۔ کہنے والے کے لہجے کا درد محسوس کرلیا جاتا ہے۔ یوں فنڈز کا انتظام شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ عرصہ معاملات کامل سنجیدگی کے ساتھ یوں چلتے ہیں کہ کاز کو ترجیح حاصل رہتی ہے، اور وسائل کی حیثیت اس کے لیے درکار ’ضرورت‘ کی ہوتی ہے۔ اس دور میں امانت و دیانت کے کچھ قصے بھی پھیل جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک بار شارپنر گم ہوگیا تو تحریک کے سربراہ کو اس غم میں تین روز تک بخار رہا کہ وہ شارپنر تو عوامی چندے سے آیا تھا۔ اس کی حفاظت میں یہ کوتاہی کیسے ہوگئی؟ اب ہم خدا کو کیا منہ دکھائیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔
مگر جلد ہی وہ دور آجاتا ہے جب کاز صرف باتوں کی حد تک رہ جاتا ہے، اور توجہ ساری کی ساری فنڈز ان کے ایسے خورد برد پر لگ جاتی ہے، جو آڈٹ رپورٹ میں بھی پکڑائی نہ دے۔ یہ کسی ایک فریق کا معاملہ نہیں۔ لبرل اور مذہبی دونوں ہی اس راہ پر ہیں۔ سو بنیادی طور پر یہ مالی مفادات کی کشمکش ہے۔ لبرلز مغربی سفارتکاروں کو مذہبی جلسوں جلوسوں کا ڈراوا دے کر پیدا گیری کررہے ہیں تو مذہبی عناصر مقامی سیٹھ کو لبرلز کی سرگرمیوں کے حوالے دے کر اسلام کو شدید خطرات سے دوچار دکھاتے ہیں۔ ہم عرض کرچکے کہ مالی مفاد ایسی چیز ہے جس کے لیے لوگ مرنے مارنے تک پر تل جاتے ہیں۔ گالم گلوچ تو عام سی بات ہے۔ سو ہمارے ہاں نظریاتی کشمکش سے تلخی اور نفرت اسی لیے جڑی نظر آتی ہے۔ آپ کسی کی روزی روٹی کو خطرے میں ڈالیں گے تو ردعمل ’شدت‘ والا ہی ہوگا۔
ہم پہلی سطر میں ہی عرض کرچکے ہیں کہ بظاہر بحث یہ ہے کہ انسانی حیات میں قانون کی نسبت سے خدا کا کوئی عمل دخل ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنا ہے؟ اس سوال کے جواب میں دونوں ہی فریقوں نے جہل و مبالغہ آرائی کی بڑی مثالیں قائم کر رکھی ہیں۔ یقین جانیے ہم جب ان دونوں کو اسلامی تصور حیات پر بات کرتے سنتے ہیں تو ہماری حیرتیں اپنا ماورائی جغرافیہ پھیلانا شروع کردیتی ہیں، اور ہم سوچتے ہیں، یہ کس اسلام کی بات ہورہی ہے؟ جو اسلام ہم نے بارہ سال لگا کر باقاعدہ پڑھ رکھا ہے اس میں تو ایسا کچھ نہیں۔
مذکورہ سوال سے متعلق ہمارا ذاتی تصور کیا ہے، ذرا وہ سن لیجیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فیصلہ کیاکہ اس نے انسان نامی پراجیکٹ لانچ کرنا ہے۔ فرشتوں کے سامنے اس کا ماسٹر پلان رکھا تو انہوں نے کہا، یہ تو آپ ایک بہت بڑا فسادی تخلیق کرنے جارہے ہیں۔ ہم ہیں ناں ہر طرح کی آلودگی سے پاک ماحول میں آپ کی حمد و ثنا کرنے والے۔ یہ فسادی تو حمد و ثنا کم اور خون خرابہ زیادہ کرےگا۔ فرشتوں کے یہ تحفظات مسترد ہوگئے اور بن گیا انسان۔
اس نئی مخلوق کو تین چیزیں ایسی دی گئیں جو کسی اور مخلوق کے پاس نہ تھیں۔ پہلی عقل، دوسری ارادہ بلکہ فری ول، اور تیسری چیز یہ کہ کسی بھی کام کے کرنے اور نہ کرنے پر عین برابر قدرت۔ یہ تین چیزیں دینے کے بعد اسے حکم دیا گیا کہ ہمارے پیغمبر تم تک ہماری کچھ تعلیمات پہنچاتے رہیں گے۔ تمارے پاس عقل ہے، وہ ان تعلیمات کو پرکھنے اور عمل میں مدد فراہم کرےگی۔ تمہیں عمل کرنے اور نہ کرنے کی برابر قدرت دی گئی ہے۔ یعنی جتنی قدرت تمہیں کسی بھلے کام کے کرنے کی حاصل ہے، اتنی ہی قدرت اس بات کی بھی حاصل ہے کہ تم نہ کرو۔ اور ہم نے تمہیں فری ول بھی دے دی ہے۔ سو جبر کوئی نہیں، اب یہ آپ کے ابا حضور کی مرضی ہے کہ ہماری بھیجی گئی تعلیمات پر عمل فرمائیں یا نہ فرمائیں۔
ہم بس یہ بتا دیں کہ دنیا میں مرضی آپ کی ہوگی، لیکن ایک یوم حساب آئےگا۔ یوم حساب مطلب ’آڈٹ کا دن‘، آڈٹ ہوگا اور ایک ایک عمل گنا جائےگا۔ صرف گنا ہی نہیں جائے گا تم میں سے ہر ایک کے ہاتھ پر اس کی آڈٹ رپورٹ رکھ بھی دی جائےگی۔ یہاں تک بتا دیا کہ جب تم اپنی اپنی آڈٹ رپورٹ دیکھو گے تو خیر و شر کا ایک بھی خرچ کیا ہوا سکہ (عمل) ایسا نہ ہوگا جس کی اینٹری وہاں موجود نہ ہو۔ یہ ہوا وہ ایجنڈا جو انسان کو اس کی تخلیق کے بعد دے کر زمین پر بھیجا گیا۔
اب اس کرہ ارض پر انسانی حیات کی دو شکلیں ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی زندگی۔ رخ اجتماعی زندگی کا کرتے ہیں کیونکہ جھگڑے وہیں سے پھوٹ رہے ہیں۔ اجتماعی زندگی کی آخری اسٹیج ریاست ہوتی ہے۔ ریاست میں چلنے والا سسٹم سیاسی نظام کہلاتا ہے۔ کیا قرآن مجید تمام جزیات پر مشتمل کوئی باقاعدہ سیاسی نظام دے کر یہ کہتا ہے کہ اسے لاگو کیجیے، اور نہ دوزخ میں جانے کی تیاری شروع کیجیے؟ نہیں، قرآن سیاسی نظام کو بس ایک جملے میں نمٹاتا ہے۔ اور وہ یہ ’ان کا سسٹم باہمی مشاورت سے ہوگا‘ یعنی فرد واحد کوئی معنی نہیں رکھتا، مسلم سماج کی باہمی مشاورت کو فوقیت حاصل ہوگی۔ یہ جو ہم انتخابات میں ووٹ دیتے ہیں اسے ’رائے دہی‘ کہا جاتا ہے کہ نہیں؟ وہ جو ہماری پارلیمنٹ میں تقاریر ہوتی ہیں وہ مشاورتی عمل ہوتا ہے یا نہیں؟
اگر آپ کو لگتا ہے ہم کھینچ تان کر جمہوریت کو مشاورت کا قرآنی معنی پہنا رہے ہیں۔ تو دور خلافت راشدہ کو ہی دیکھ لیجیے۔ آپ ﷺ کے وصال کے بعد چار خلفا ایسے آئے ہیں جنہیں ہم خلفائے راشدین کہتے ہیں۔ چاروں کا طریقہ انتخاب مختلف ہے۔ چاروں کے انتخاب میں بس ایک ہی چیز قدر مشترک ہے اور وہ ہے ’مشاورت‘، اگر اللہ نے کوئی فکسڈ سیاسی نظام دیا ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ کے چاروں خلفا کا طریقہ انتخاب ایک دوسرے سے مختلف ہوتا؟ ذرا دو مزید مثالیں دیکھیے، جن سے واضح ہوجائے گا کہ سیاسی نظام میں اپنا عمل دخل اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انتہائی قلیل رکھ کر پورا سسٹم مسلمانوں کی تخلیقی صلاحیت پر چھوڑ دیا ہے۔
ان دو مثالوں میں سے پہلی مثال معیشت کی ہے۔ وہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے بس دو اصول بتائے جا رہے ہیں۔ ایک یہ کہ حرام حلال کی تمیز رکھنا۔ اور دوسرا یہ کہ سود سے بچنا۔ حرام حلال کی تمیز کا سادہ ترین مطلب ہے ’کرپشن‘ پر کنٹرول۔ جبکہ سود میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ استحصال کی بدترین شکل ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ کسی شخص کو اچانک پیسے کی ضرورت پیش آجائے اور اس کے پاس نہ ہوں تو وہ کسی سے قرض مانگ لیتا ہے۔ اور مقررہ مدت میں واپس کردیتا ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ اس شخص کا بحران مزید بڑھ گیا اور اس میں قرض واپس کرنے کی سکت ہی نہ رہی۔ تو اسلام کہتا ہے کہ جب یہ دے ہی نہیں سکتا، اس کے پاس ہیں ہی نہیں تو یہ قابل مواخذہ نہیں۔
اس کے برخلاف سودی قرضے کا نظام یہ کرتا ہے کہ جتنا قرض چاہئے، اسی مالیت کی پراپرٹی رہن رکھوایئے۔ اگر مزید برباد ہوکر قرض واپس کرنے صلاحیت ہی کھو بیٹھے تو اب پراپرٹی سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ کیا دوسری جنگ عظیم کے عوامل میں سے ایک اہم محرک یہی سود کا معاملہ نہ تھا؟ جرمن یہودی ہٹلر کی ہٹ لسٹ پر کیوں آئے تھے؟ سو اسلام بھی بس اس سے منع کرتا ہے، معیشت کا پورا ڈھانچہ تشکیل کیسے دیا جائے گا؟ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسلمانوں کی مشاورت پر چھوڑ چکے۔
تیسری مثال عدالتی نظام کی ہے۔ کل ملا کر پانچ سزائیں ایسی ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طے کردہ ہیں۔ ذرا ایک نظر اس ماڈرن ورلڈ پر ڈالیے، کیا دنیا بھر کی عدالتیں بس پانچ ہی سزائیں دے رہی ہیں؟۔ اور فرق بس یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ والی پانچ اور باقی دنیا کی پانچ سزائیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟ سزا کا باب تو اتنا وسیع ہے کہ ہمارے کلاسیکل دور کے فقہا ہی نہیں بلکہ آج کا امریکی قانون بھی یہ کہتا ہے کہ جج قانون کی کتاب سے باہر جا کر بھی کوئی سزا دے سکتا ہے۔ تو پھر کل ملا کر بس پانچ سزائیں ہی اللہ نے کیوں طے کیں؟ پورا عدالتی پیکج کیوں نہ دیا؟ اس لیے کہ وہ انسان کو عقل، فری ول، اور کرنے و نہ کرنے کی مساوات دے کر اسی کی صلاحیتوں کو اظہار کا موقع دینا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جو بھی بھلا برا، غلط درست کرنا ہے یہ اپنی مرضی سے کرے۔ اللہ کی جانب سے ہر شعبے کا بس موٹا اصول موجود ہو۔ جزیات انسان خود طے کرے۔
ایک نہایت دلچسپ چیز اور دیکھیے۔ جزا و سزا کے پس منظر میں گناہوں یعنی جرائم کی شرعی لحاظ سے دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ گناہ ہیں جن کی اس دنیا میں سزا ہے۔ اور وہ سزا دینے کا حق صرف عدالت کو حاصل ہے۔ دوسرے وہ گناہ جن کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں، ان کی سزا آخرت میں ہوگی۔ اب ذرا غور کیجیے کہ فرق کیا ہے دونوں میں؟ فرق یہ ہے کہ وہ جرائم جن میں انسانی حقوق میں سے کوئی حق بھی تلف ہوا ہے، ان کی سزا تو اس دنیا میں ہے لیکن جس گناہ میں کوئی انسانی حق تلف نہیں ہوا، اس کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں۔ جانتے ہیں اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہ مطلب ہوا کہ اگر کسی انسان نے دوسرے انسان کا حق متاثر نہیں کیا بلکہ ایسا جرم کیا ہے کہ صرف اللہ کی نافرمانی کی ہے تو اللہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کے اور میرے معاملے میں دخل دے۔ اس کا فیصلہ آخرت میں ہم خود کریں گے کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ تم انسانوں کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔
اب ذرا اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ یہ جو مجوزہ اسلامی پولیٹیکل سسٹم ہے یہ 99 فیصد انسانی تخلیق ہے کہ نہیں؟ خدا کو اس سے بیدخل کرنے کی ضرورت کہاں سے پیش آگئی؟ اس نے تو خود ہی اپنا عمل دخل انتہائی قلیل رکھا ہے۔ اس کا ماسٹر پلان ہی یہ ہے کہ انسان کو اس کی عقل، فری ول، اور کرنے و نہ کرنے پر مساوات کا بھرپور اظہار کرنے دیا جائے۔ اور پھر آخرت میں آڈٹ رپورٹ پکڑا دی جائے۔ کیا ہمارا مذہبی لیڈر یہ بات بتاتا ہے؟ نہیں، بلکہ وہ جان بوجھ کر یہ باور کراتا ہے کہ جیسے خدا کی طرف سے کوئی فکسڈ پولیٹیکل سسٹم ان حضرت کے پاس موجود ہو۔ بس آپ ایک بار تخت ان کے حوالے کردیں تو یہ نافذ کرکے ہی دکھائیں گے کہ یہ ہوتا ہے اسلامی نظام۔ جبکہ فی الحقیقت ایسا کوئی نظام سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا جو پورے کا پورا کیا نصف بھی منزل من السما ہو۔ اسلامی نظام بھی 99 فیصد مین میڈ ہی ہوگا۔ یہی حال لبرلز کا بھی ہے، وہ بھی جان بوجھ کر یہ ڈراوے دیتے پھرتے ہیں جیسے کوئی آسمان سے آیا ہوا فکسڈ سیاسی سسٹم واقعی مولوی کے صندوق میں پڑا ہے۔ اور دونوں جانب سے یہ کھیل پیسے کا ہی کھیل ہے۔ روزی روٹی کا معاملہ ہے۔
اب ایک ستم دیکھیے۔ اس ملک میں بیس سال یہ شور چلا کہ مذہبی فکر کے لوگ کہتے تھے، ہر چیز گڈ بھی ہوتی ہے، بیڈ بھی۔ سو گڈ طالبان بھی ہیں اور بیڈ طالبان بھی۔ اس کے جواب میں لبرلز کہتے تھے کہ برائی بس برائی ہوتی ہے اور طالبان ایک برائی ہیں۔ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارا ہر لبرل یہ بات کرتا تھا کہ نہیں؟ اب ذرا شام کا منظر دیکھیے۔ خود امریکا کی لبرل حکومت نے گڈ القاعدہ اور بیڈ القاعدہ کی تقسیم پیش کردی کہ نہیں؟ اپنے سرکی 10 ملین ڈالر قیمت رکھنے والا الجولانی راتوں رات مغربی دنیا کی آنکھ کا تارہ بنا کہ نہیں؟ اس کا کیا مطلب ہوا؟ ہمارے نزدیک تو یہی کہ اپنے اپنے مقام پر رعایت اللہ فاروقی اور وجاہت مسعود دونوں ہی کے ساتھ یہ واردات ہوئی ہے کہ وہ جس روشی کو تجلی طور سمجھتے تھے وہ آگے چل کر کمرشل ٹرک کی بتی ثابت ہوئی۔ ہمیں اور وجاہت کو ایک ہونا پڑے گا۔ ہمارا پولیٹیکل تصور 99 فیصد مین میڈ ہے۔ جبکہ وجاہت کا 100 فیصد۔ ایک فیصد کا فرق بھی کوئی فرق ہوتا ہے؟ ہم ٹرک کی بتی کے لیے کیوں لڑیں؟