ہم جدید سہولتوں کےدیوانے بھی ہیں اورمخالف بھی

بدھ 8 جنوری 2025
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا بدل رہی ہے لیکن ہم ہیں کہ ابھی تک ان پرانی اور گھسی پٹی باتوں اور نظریات و روایات کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں جن پر نجانے کتنے زمانوں کی جہالت کا غبار چڑھا ہوا ہے اور جسے ہم جھاڑنے پر کسی صورت تیار نہیں۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیکھیے۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں جن کے گھر میں 2 بزرگ مریض ہیں لیکن ان کے واش رومز میں ڈبلیو سی لگی ہوئی ہے جس پر اکڑوں بیٹھنا پڑتا ہے۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ کموڈ جدید طرز کا لگوا لو تو وہ مجھ سے باقاعدہ الجھ پڑے اور اس طنزیہ انداز میں مسکرائے گویا میں نے کوئی کفریہ کلمہ کہہ دیا ہو۔ فرمانے لگے اس طرح وضو نہیں ہوتا۔ اب ان بزرگوں کی صحت زیادہ خراب ہوئی ہے تو واش روم میں ایک کرسی رکھ دی گئی ہے، معلوم نہیں اس پر بیٹھ کر معاملات کیسے نمٹائے جاتے ہوں گے، یہ مضحکہ خیز  سے زیادہ قابل رحم صورت حال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اپنی ہر کتاب الگ کمرے میں بیٹھ کر مکمل کرنے والا ممتاز فکشن نگار

انہیں تو چھوڑیے، سرکاری اداروں کی سوچ دیکھیے، موٹر وے جیسی جدید شاہراہ پر قائم آرام گاہوں میں واش رومز میں جدید کموڈ کم کم ہوتے ہیں اورایک معروف غیر ملکی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ٹرمینلز پربھی جدید کموڈ مشکل سے ملتا ہے۔ اور تو اور یہاں تو کموڈ شاور لگانا بھی بے حیائی گردانا جاتا ہے اور لوٹا رکھنا احسن خیال کیا جاتا ہے۔ کیا لوگ ہیں ہم بھی۔

ہم ایک طرف سہولتوں اورآسائشوں کے حصول کے لیے ہرطرح کے حربے آزمانے، کڑی مشقت کرنے، یہاں تک کہ جھوٹ بولنے اور فراڈ کرنے تک کو تیار ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب بہت آسانی سے دستیاب ہو سکنے والی سہولتوں اورآسانیوں سے محض چند غلط فہمیوں کے باعث محروم رہتے ہیں۔

’آج کا معجزہ، کل کی ٹیکنالوجی کہلاتا ہے۔‘ یہ الفاظ رچرڈ ڈاکنز کے ہیں۔ وہ اپنی کتاب میجک آف ریئلیٹی، جس کا ترجمہ ’حقیقت کا جادو‘ کے نام سے ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین نے کیا ہے، میں لکھتے ہیں  کہ ’تصور کریں کہ ایک قرون وسطیٰ کا انسان اپنے عہد کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا انسان بھی اگر جیٹ طیارہ، کوئی لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر دیکھے، یا موبائل فون دیکھے تو کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرے گا؟ وہ شاید انہیں مافوق الفطرت اور معجزاتی کہے گا۔ لیکن یہ آلات اب عام چیزیں ہیں؛ اور ہم لوگ جنہوں نے سائنسی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے انہیں بنایا ہے جانتے ہیں کہ یہ کیسے کام کرتے ہیں۔ جادو جگانے کی یامعجزات یا مافوق الفطرت چیزیں دکھانے کی ضرورت نہ تھی اور ہم اب دیکھتے ہیں کہ قرون وسطٰی کا انسان ایسا کرنے میں غلط ہوتا‘۔

ہم دراصل مغالطوں میں جی رہے ہیں۔ ہم توہمات اور بے بنیاد عقائد و روایات کی فضا میں سانس لینے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ دنیا کیا کر رہی ہے اور کس طرف جا رہی ہے۔ فکری و فلسفیانہ مباحث سے ہٹ کر عملی طور پر انسانوں سے براہ راست معاملات کرنا پڑیں تو قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری زندگیوں پر چھوٹی چھوٹی چیزوں، باتوں اورمعاملات میں مغالطوں ہی کا راج ہے۔ ان مغالطوں کی وجہ سے ہم نے اپنی زندگیوں کو بھی جہنم بنارکھا ہے اور دوسروں کی زندگیوں کو پُرعذاب بنانے میں بھی پیش پیش ہیں۔ ایسے ایسے مغالطے دماغوں میں راسخ ہو چکے ہیں کہ جن کی بنیاد پر لوگ اپنا حق تک مانگنے سے گھبراتے ہیں۔

مزید پڑھیے: نوبیل انعام یافتہ ڈرامہ نگارجوجنگ کے دوران بھی اپنا کرکٹ بلا نہیں بھولے 

یہ  سب باتیں اس سماج کی خاص جابرانہ اور پدرسرانہ سوچ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ کارپردازانِ سیاست و حکومت اورسماج میں نام نہاد معزز و محترم مرتبے کے حامل افراد ان توہمات اور بے سروپا باتوں کو ایمان کا درجہ دیتے ہیں تا کہ ان کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو اور ان کے پیشہ ورانہ اور کاروباری سلسلے رواں دواں رہیں۔ وہ اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں کہ سماج میں سوال اٹھانا ہمیشہ جرم سمجھا جائے بلکہ کفر کے معنوں میں لیا جائے۔ اس روش نے ہمارے ہاں تحقیقی وتعلیمی عمل کو بے سود اور بے مقصد سرگرمی بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہم چند برسوں یا چند دہائیوں بعد ہر نئی ٹیکنالوجی، ہرنئی دریافت یا نئی سہولت کو اپنا تو لیتے ہیں لیکن اپنی اور اپنے پیاروں کی عمروں کا بڑا اور اہم حصہ ضائع کرنے کے بعد اور یوں جدید دنیا سے ہمارا فکری و ارتقائی فاصلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں: ہم موت کے بستر پر بھی خود غرضی نہیں چھوڑتے

بات رچرڈ ڈاکنز پر ہی ختم کرتے ہیں جو کہتے ہیں’ذرا دیکھیے تو ایک منطقی دماغ چیزوں کو کس طرح دیکھتا ہے، وہ سائنس کے معجزات کا نہیں محدودات کا ذکر بھی کرتا ہے، اگر ایک ٹائم مشین ہمیں صدی کے قریب آگے لے گئی ہوتی تو ہم وہ حیرتیں دیکھتے جنہیں ہم آج ناممکن سمجھتے ہیں۔۔۔ ’معجزات‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وہ چیز جسے ہم آج ناممکن سمجھتے ہیں وہ مستقبل میں ضرورہوگی۔ سائنس فکشن مصنفین آسانی سے ایک ٹائم مشین کا تصور کر سکتے ہیں۔۔۔ یا ایک ردِ کشش مشین کا، یا ایک راکٹ کا جو ہمیں روشنی سے زیادہ تیز رفتار سے لے جا سکے۔ لیکن یہ خالص حقیقت کہ ہم ان کا تصور کر سکتے ہیں، یہ فرض کرنے کے لیے کوئی وجہ نہیں رکھتی کہ ایسی مشینیں ایک دن حقیقت بن جائیں گی۔ کچھ چیزیں ہم جن کا آج تصور کر سکتے ہیں حقیقت بن جائیں گی۔ زیادہ تر نہیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp