ٹل سے گاڑیوں کا پہلا قافلہ پاڑا چنار پہنچ گیا۔ مرغی، انڈوں اور پاپڑ وغیرہ پر مشتمل 20 چھوٹی گاڑیاں منزل مقصود پر پہنچ گئیں۔
یہ بھی پڑھیےڈی سی کُرم پر حملے میں ملوث ملزمان کی شناخت، خیبرپختونخوا حکومت کا سخت کارروائی کافیصلہ
بگن متاثرین کے لیے لایا جانے والا امدادی سامان بھی بگن لوئر کرم پہنچا دیا گیا۔ پی ڈی ایم اے کے جانب سے 17 گاڑیاں کا امدادی سامان متاثرین کو دیا جائے گا۔
تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بڑے ٹرک رات کو پہنچیں گے۔ قافلے کی گاڑیوں میں اشیائے خورونوش سمیت دیگر ضروری اشیا شامل ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت اور علاقہ عمائدین کے مابین مذاکرات کامیاب ہوئے تھے جس کے بعد گزشتہ رات کو قافلے کو روانہ کرنے کی اجازت دی گئی۔
قبل ازیں خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مذاکرات کے نتیجے میں کئی ماہ بعد پہلی بار امدادی سامان لے جانے والا قافلہ پاڑا چنار کی طرف روانہ ہوا۔ پولیس کے مطابق ابتدائی طور پر 10 سامان کی گاڑیاں کرم کے مختلف علاقوں کے لیے روانہ ہو گئی ہیں جبکہ بگن کے مقام پر مظاہرین کی جانب سے جاری دھرنا ختم کرنے کے بعد روڈ کو کلیئر کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں کرم کے تمام راستوں پر کرفیو نافذ ہے اور مقامی آبادی کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ کرفیو کے دوران گھروں سے نہ نکلیں۔ انھوں نے بتایا کہ ٹل پاڑا چنار روڈ پر شام چھ بجے تک کرفیو نافذ رہے گی۔
کرفیو نافذ، فضائی نگرانی جاری
ایک پولیس افسر نے بتایا کہ کمشنر اور دیگر افسران نے بگن کے مقام پر جاری دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کیے اور انھیں دھرنا ختم کرانے پر قائل کیا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹل سے پہلا قافلہ روانہ ہو گیا ہے جس میں 10 بڑی گاڑیاں شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ قافلے کے لیے سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ٹل پاڑاچنار روڈ پر کرفیو نافذ ہے جبکہ قافلے کی ہیلی کاپٹر سے فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ امدادی سامان میں اشیا خورونوش، ادویات اور دیگر سامان شامل ہے جو پاڑاچنار اور ملحقہ علاقوں میں روڈ بندش کے باعث محصور آبادی میں تقسیم کیا جائے گا۔
لشکر کشی سے ہونے والے نقصان کا ازالہ نہیں کیا گیا
کرم میں بگن نامی گاؤں کے مکین روڈ کھولنے پر حکومت کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ چند دن پہلے قافلوں کے لیے روڈ کھولنے کی کوشش کے دوران فائرنگ ہوئی تھی جس میں ڈپٹی کمشنر کرم جاوید محسود سمیت پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ جس کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔ بگن کے مکینوں نے نقصانات کا ازالہ نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے پاڑا چنار روڈ کو بند کرکے دھرنا دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیےکرم: فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود شدید زخمی، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر قافلہ روک دیا گیا
مقامی شخصیت سلیم خان اورکزئی ک مطابق بگن میں 800 گھر اور 453 دکانیں نذر آتش کی گئیں۔ ان کے مطابق پاڑا چنار کے اطراف میں تری مینگل، بوشہرہ، اوزگھڑی کے قریب خوراک اور میڈیکل سہولیات میسر نہیں۔ ان کے مطابق حکومت نقصانات کا ازالہ کرے اور ایپکس کمیٹی کے معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیےکرم فائرنگ ان عناصر کی کارستانی ہے جو علاقے میں امن کی بحالی نہیں چاہتے، علی امین گنڈاپور
مقامی رہنما حاجی کریم کے مطابق بگن واقعے کے 42 دن گزرنے کے بعد کوئی داد رسی نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے لوگ مندوری میں احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔ باچا کورٹ، تودہ چینہ، حاجی کلے، نوئے کلے اور بگن میں 800 گھروں کو جلایا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے 2 رہنماؤں کو حکومتی تحویل میں لیا گیا ہے، انھیں رہا کیا جائے۔‘
‘صوبائی حکومت ذمہ داری پوری نہیں کر رہی’
کرم کے حالات پر کڑی نظر رکھنے والے سینئیر صحافی علی اکبر کا ماننا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کرم میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ رٹ بحال کرنے کے بجائے ذمہ داری جرگے پر ڈال رہی ہے۔ انھوں نے کہا حکومت کو چاہیے کہ شر پسند عناصر سے سختی سے نمٹے اور پاڑاچنار روڈ کو کھولے اور سکیورٹی کے موثر انتظامات کرے۔