آصف زرداری پچاس گاڑیوں کے پروٹوکول میں ایوان صدر سے نکلے ہیں۔ آصف زرداری ساٹھ گاڑیوں کی حفاظت میں جیل جا رہے ہیں۔ جَھلی قوم اس جیل اور دفتر جاتے آصف زرداری پر خوش اور خفا ہو سکتی ہے۔ خوشی اور خفگی کا تعلق بس اس بات سے ہے کہ آپ ان کے مخالف ہیں یا حامی۔ آصف زرداری کو کیا فرق پڑا جس پروٹوکول میں دفتر جا رہے تھے اسی میں جیل جا رہے ہیں۔ جیل ہو یا دفتر، سیاست سے انہیں کوئی غیر متعلق نہیں کر سکا ۔
کپتان ایک سال سے روڈ پر ہے، احتجاج اور بس احتجاج۔ ہر بات پر احتجاج ۔ نوازشریف چھوڑیں اسفند یار ولی خان، اختر مینگل ، مولانا فضل الرحمان بھی اپنی مرضی کے وقت پر بولتے ہیں۔ لوگ تھک جاتے ہیں کہ یہ اب کچھ بولیں۔ پر سیاستدان تب ہی بولتا ہے جب اس کا کوئی مطلب پورا ہوتا ہو ۔
ہمارے پنڈی کو سیاست میں مداخلت کا بچپن سے شوق تھا۔ ہم دیکھا کرتے تھے پنڈی سے معیشت پر بیان آیا کرتے تھے۔ سینیٹ میں اکثریت اقلیت میں بدل جاتی تھی۔ الیکشن کے دن ڈبوں سے حوالدار بشیر سلوٹ مارتا برآمد ہوتا تھا ۔ تھینکس ٹو کپتان اب ہمیں شام سویرے بتایا جاتا ہے کہ ہم نیوٹرل ہیں ۔ ہم نے مائی گارڈ کا پارلیمنٹ میں تازہ بیان دیکھا جس میں عوام اور پارلیمنٹ کی طاقت وغیرہ کا ذکر تھا۔
اب عدالت نے پارلیمنٹ سے متھا لگا رکھا ہے۔ پارلیمنٹ آدھی خالی ہے اور عدالت آدھو آدھ تقسیم ہے۔ طاقت کے اس کھیل میں سیاست کے پاس وقت ہی وقت ہے اور عدالت کے پاس ایک ستمگر ستمبر کی طرف بڑھتے اور کم ہوتے دن، گھنٹے اور منٹ ہیں ۔
اس لڑائی کی کہانی اتنی ہے کہ نواں پاکستان بناتے وقت بہت سی غلطیاں کی گئی ہیں۔ پرانے سیاستدانوں کو برا بنایا اور بتایا گیا۔ ڈھیٹ مٹی سے بنے جیلوں، مقدموں اور لڑائیوں سے بچ کر سروائیو کرتے ان سیاستدانوں کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ ہم نے ایک چیف جسٹس دیکھا جو امیدواروں کی الیکشن مہم تک چلاتا رہا۔ ایک ہی قسم کے کیسز میں کئی قسم کے فیصلے ہوتے دیکھے گئے۔ اب یہ کہانی اپنے اختتام کی جانب پہنچ گئی ہے۔ عدالت اب سیاست کے میدان میں آ گئی ہے۔ اس کا نتیجہ ظاہر و باہر ہے۔
کپتان کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے یہ تاثر کامیابی سے بنا دیا ہے کہ ملک چل نہیں رہا۔ یہ گورننس کے قابل نہیں ہیں۔ ہر اہم موقع پر ہم نے پی ٹی آئی کو تب احتجاج پر جاتے دیکھا جب معاشی حوالے سے کوئی ڈویلپمنٹ ہو رہی تھی۔ دھرنا، احتجاج، لانگ مارچ، اپنی اسمبلیوں کا توڑنا، یہ سب تب ہوا جب کوئی اہم مذاکرات ہو رہے تھے۔ ڈونر کانفرنس تھی ، آئی ایم ایف سے مذاکرات تھے، کسی دوست ملک سے پیسوں کے لیے ترلے ہو رہے تھے۔
اگر کوئی کسر رہتی تھی تو وہ اسٹیٹ بینک کو تازہ عدالتی حکم نے پوری کر دی ہے۔ اب حکومت کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی رٹ ثابت کرے۔ آؤٹ آف باکس کوئی ایکشن لے یا دستیاب پارلیمانی یا قانونی طاقت کو استعمال کرے۔ یہ بتا دے کہ اس کی اتھارٹی مکمل طور پر قائم اور بحال ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے دوست ملک بھی ہمیں مشورے دے رہے ہیں کہ الیکشن ایک دو سال کے لیے ملتوی کر دیے جائیں۔ سیاسی اور معاشی استحکام لانے پر کام کیا جائے۔ پہلے معاشی معاملات درست کیے جائیں، اس کے بعد الیکشن والی عیاشی کر لی جائے ۔ الیکشن کو عیاشی اس لیے لکھا ہے کہ جہاں سے یہ مشورہ آ رہا ہے وہاں الیکشن کا رواج کوئی نہیں ہے۔
پاکستان نہ کوئی چھوٹا ملک ہے نہ کوئی عام ملک ہے، دنیا ہمیں نظر انداز کر ہی نہیں سکتی۔ ہمارا غیر مستحکم و بے سمت ہونا کسی کو وارے میں نہیں۔ ہماری معیشت سیاسی استحکام سے جُڑ گئی ہے۔ ایک اتھارٹی دکھاتی حکومت اس وقت ضرورت ہے، یہ نئی تو کہیں سے آنی نہیں جو بیٹھے ہیں انہی کو کچھ کر کے دکھانا ہے۔ تسلی والی بات بس اتنی ہے کہ جب کوئی بھی سیاست کے میدان میں آ کر سیاستدانوں کو چیلنج کرے گا تو اس کی ہار دیوار پر لکھی ہے۔ سیاست پر دھکے اور ڈنڈے کا استعمال نہ کیا جائے تو وہ اپنا راستہ بنا ہی لیتی ہے۔ سیاستدانوں کو سیاست میں شکست دینے کے خواب ٹوٹتے ہی رہنے ہیں۔