دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالے جانے کیخلاف کراچی بار کا کنونشن

ہفتہ 11 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کراچی بار کے تحت دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے اور زرعی اراضی کارپوریٹ سیکٹر کو دینے کے خلاف وکلا کنونشن منعقد ہوا۔

کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ایڈووکیٹ ارشد شر کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ سے نئی نہروں کا منصوبہ سندھ کو بنجر بنانے کا منصوبہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کیا دریائے سندھ سونا اُگل رہا ہے؟

انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے نئی نہریں سندھ کی شہ رگ کاٹنے کے مترادف ہے۔ ریگستان کو آباد کرنے کے لئے سندھ کو برباد کیا جارہا ہے۔

ناہید افضال نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں تباہی کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو کس کارنامے کے انعام کے طور پر عمر کوٹ میں 14 ہزار ایکڑ اراضی دی جارہی ہے؟

اس موقع پر محمد خان شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سندھ کے باسیوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے، سندھ کو ویسے ہی پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کی زمینوں پر سندھ کے لوگوں کا حق ہے۔

کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عاقب راجپر نے کہا کہ سندھ کی 52 ہزار ایکڑ اراضی دیے جانے پر نگران حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا، ڈی ایچ اے کو 6 ہزار ایکڑ دینے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے۔

اس موقع پر جہانگیر راہوجو نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سندھ دھرتی کا ایک انچ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ  انڈسٹری بیسن منصوبے کا کیا بنا؟ کیا وہ منصوبوں سے فائدہ ملا؟ کیا مقامی کسانوں کے ذریعے ریفارمز نہیں لائے جاسکتے؟

کنونشن سے خطاب میں ضیا اعوان کا کہنا تھا کہ وکلا تحریک کا آغاز کر رہے ہیں، جہاں سیاسی جماعتیں ناکام ہوتی ہیں کراچی بار وہاں کردار ادا کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر آبی ماہرین سے رائے لینے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ملک میں سردی جوبن پر، دریائے سندھ جم گیا

کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے  جی ایم کورائی کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام کے نمائندے اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار بن چکے ہیں۔

کاشف حنیف وائس چیئرمین سندھ بار کونسل نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس معاملے پر بھی مؤقف وہی ہے جو 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہے۔ 26ویں ترمیم عدلیہ پر حملہ تھا تو نئی نہریں وفاقی کے حصے پر حملہ ہے۔

انہوں نے کہا نہروں کا معاملہ عدالت میں چیلنج کرنے کے لئے بھی آئینی عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔ مقتدر حلقوں نے فیصلہ کیا ہے کہ سب کو آپس میں لڑوائیں۔

ایاز چانڈیو سیکریٹری ملیر بار نے کہا کہ زرعی اراضی کا حصول سندھ کے عوام کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ سندھ کے پانی اور اراضی کے تحفظ کے لیے پہلے بھی جیلوں کا سامنا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کھیتی باڑی کرنا چوکیداروں کا کام نہیں ہے۔ سندھ کے باسی ہزاروں سالوں سے سندھ کے مالک ہیں۔ پانی پر سب سے زیادہ حق سندھ کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیلٹا کو دینے کے لئے پانی نہیں ہے تو نہروں میں پانی کہاں سے آئے گا؟

انہوں نے کہا کہ بندوق کے زور پر سندھ کے لوگوں کو غلام نہیں بنایا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں:دریائے سندھ پر مزید نہروں کا منصوبہ کالا باغ ڈیم کی طرح متنازع ہوجائے گا، بلاول بھٹو

ملیر بار ایسوسی ایشن ایک ہفتے قبل اسکے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرچکی ہے

اس موقع پر مرزا سرفراز سیکریٹری سندھ ہائی کورٹ بار کا کہنا تھا کہ  نئی نہریں سندھ پانی کی تقسیم کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ سندھ حکومت نے کابینہ کا اسمبلی سے کوئی منظوری نہیں لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ میں پانی نہیں ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے سے دریا کی سطح بھی کم ہوتی ہے، ملیر میں کھیتی باڑی ختم ہوچکی ہے

ان کا کہنا تھا کہ ملیر میں کنوؤں کا پانی کھارا ہوچکا ہے۔ جب دریا کا پانی کم ہوگا تو سمندر ڈیلٹا کو مزید نقصان پہنچائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کی زمینوں پر حق سندھ کے باسیوں کا ہے۔ قانون کے مطابق 4 ایکڑ سے زیادہ اراضی دینے کے اشتہار اور کھلی کچہری ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام قوانین کو بالائی طاق رکھتے ہوئے براہ راست اراضی الاٹ کی جارہی ہے۔

اس موقع پر نعیم قریشی کا کہنا تھا کہ آج کی حکومت بھی مارشل لا کے ماتحت ہے۔ کونسی سیاسی حکومت مزاحمت کررہی ہے؟ سیاسی جماعتیں عدلیہ کو منتخب کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب چوکیدار مالک بن جائے تو پھر احتجاج کا راستہ بچتا ہے۔

کنونشن سے خطاب میں اشرف سموں کا کہنا تھا کہ نئی نہریں بنائی گئیں تو دریا کا پانی کوٹری سے آگے نہیں پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ  بدین والوں کا کیا ہوگا، کراچی والوں کا کیا ہوگا؟ سندھ کے ممبران صوبائی و قومی اسمبلی مسئلے پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں اہم پیشرفت، دریائے سندھ کا رخ کامیابی سے موڑ دیا گیا

حیدرآباد بار سجاد چانڈیو نے اس موقع پر کہا کہ سندھ کے پانی پر ڈاکہ قیام پاکستان سے قبل سے جاری ہے۔عالمی قوانین کے اصولوں کے مطابق زیریں علاقوں کو پانی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ آمروں نے  29 لاکھ ایکڑ اراضی تقسیم کی گئی، ریاست کا رویہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ شروع سے درست نہیں۔

کنونشن سے خطاب میں حیدر امام کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ برسوں سے یہ سازش جاری تھی، سندھ کو تقسیم کی سازش کی جارہی ہے، پہلے عدلیہ کو تقسیم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے بعد معاشی انارکی پھیلائی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے تیس برسوں کے لئے کارپوریٹ گورننگ کے لیے زمین دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان سے ایک ہزار گز کا پلاٹ خالی کروا کر دکھا دیں۔ کہتے ہیں پارلیمان سپریم ہے، رات کی تاریکی میں 26 ویں ترمیم پاس کرنے والی پارلیمان سپریم نہیں ہوسکتی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ سیاسی جماعتوں کے وکلا ونگ اس معاملے میں کہاں ہیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp