احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید نے 190ملین پاونڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 14سال اور اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ عدالت نے القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم بھی جاری کردیا جبکہ بشریٰ بی بی کو عدالتی فیصلے کے بعد عدالت کے احاطے سے ہی تحویل میں لے لیا گیا۔
پاکستانی تاریخ میں اس طرح کے فیصلے عموماً متنازع ہی بنتے آرہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس میں 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسی کیس میں ان کی بیٹی مریم نواز موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب کو 7سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ میاں نواز شریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس کے علاؤہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کیس میں بھی نواز شریف کو 7سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کیس میں نواز شریف کو بری کیا گیا۔
آصف علی زرداری کے خلاف کئی کیسز میں فرد جرم عائد ہوئی اور کافی عرصہ جیل میں بھی گزارنا پڑا لیکن یہ ساری سزائیں اور کیسز سیاسی حالات کے تناظر میں ختم ہوتی آرہی ہیں۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف بننے والے کیسز میں 190ملین پاؤنڈ والا کیس سب سے مضبوط کیس مانا جاتا ہے اور فیصلہ سنائے جانے کے بعد اکثر قانونی ماہرین اس کیس کو مضبوط شواہد پر مبنی فیصلہ قرار دے رہے ہیں لیکن جیسے کہ عرض کیا ہے ایسے سیاسی کیسز متنازع بنتے آرہے ہیں جس کی وجہ سے سزاؤں پر عملدرآمد رکتا آیا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ ہمارے نظام انصاف میں احتساب کا ایک ایسا مضبوط نظام ہونا چاہیے جو کسی طاقتور کی خواہشات کے برعکس آئین اور قانون کے مطابق چلے۔ ایک ایسا سسٹم جو ہر ادارے اور ہر محکمے سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو کسی طرح کی بدعنوانی یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو، کو قانون کی گرفت میں لانے کی طاقت رکھتا ہو۔ جہاں کوئی یہ سوال نہ اٹھا سکے کہ فلاں شخص بھی چور ہے مگر سزا صرف مجھے دی گئی۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنائے جانے کے بعد تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسا انصاف کا نظام ہے کہ حسن نواز اربوں روپے ملک سے باہر لے گیا لیکن کسی نے نہیں پوچھا جبکہ عمران خان جنہوں نے کینسر اسپتال بنایا ان کو سزا سنا دی گئی؟
سینیٹر شبلی فراز نے بھی وہی باتیں کیں اور کہا کہ یہ کیس بھی اعلیٰ عدلیہ میں دیگر ختم ہونے والے کیسز کی طرح ختم ہو جائے گا اور یہ کہ خان صاحب نے کینسر اسپتال کے علاؤہ نمل یونیورسٹی بنائی وغیرہ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شوکت خانم اسپتال خان صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے اور نمل یونیورسٹی بھی ان کے اچھے کاموں کی فہرست میں اضافہ ہے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اچھے کام کرکے غلط کام کرنے کی اجازت مل جائے؟
خان صاحب سے سیاسی اختلاف کے باوجود اس بات پر یقین رہا تھا کہ عمران خان کرپٹ نہیں ہے مگر 2018 کے بعد ان کی بیگم بشریٰ بی بی کی سرگرمیاں ہم سب کے سامنے ہیں۔ بشریٰ بی بی کی قابل اعتماد دوست فرح گوگی پر کئی طرح کے الزامات لگے۔ یہاں تک کہا گیا کہ بیوروکریسی کے تبادلوں پر بھی کروڑوں روپے لیے گئے۔ اپنی بیوی کا دفاع کرتے کرتے خان صاحب کو فرح گوگی کے دفاع میں بھی وی لاگ کرنے پڑے۔
اب ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن ہوتی کیا ہے؟ اگر آپ آنکھیں بند کرکے کسی ایسے شخص کی پیروی کریں گے جو کرپشن میں ملوث ہے تو آپ کے کردار پر بھی سوالات اُٹھیں گے اور یہاں تو بنیادی ذمہ داری آپ پر عائد ہورہی ہے کیونکہ آپ کو اس ملک کے پورے نظام کی ذمہ داری دی گئی ہے اگر آپ ملوث نہ بھی ہوں مگر اپنے گھر کے معاملات سے بے خبر ہیں تو کیا آپ اس لائق ہے کہ پورے بیس بائیس کروڑ عوام کی ذمہ داری ملے؟
بہرحال فیصلہ تو ہوگیا لیکن پس پردہ مذاکرات کی باتیں بھی چل رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ بشریٰ بی بی کی رہائی سے ملنے والی ڈھیل سے بات ڈیل تک کیسے پہنچتی ہے لیکن ایک بات ضرور عرض کریں گے کہ بیشک ڈھیل یا ڈیل کی باتیں جاری رہیں گی مگر اس وقت عوام کا ایک بڑا حصہ نظام کو پنپتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
اگر عمران خان اور بشریٰ بی نے کوئی جرم نہیں کیا تو عدالتوں کو فیصلہ کرنے دیں اور اگر کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو بھی ڈیل کے نتیجے میں فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس بار بھی فیصلے خواہشات اور مفادات کے مطابق بدلے گئے تو عوام کا نظام پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
ایک عام انصافی سمجھتا ہے کہ تحریک انصاف سے وابستہ لوگ غلط ہوہی نہیں سکتے لیکن یقین مانیں اس وقت خیبرپختونخوا کی حکومت غلط راہ پر گامزن ہے۔ خیبرپختونخوا میں مبینہ طور پر کلاس فور کی نوکریاں تک فروخت ہو رہی ہیں اربوں روپے غائب ہورہے ہیں لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ تحریک انصاف سے وابستہ نوجوانوں کو یہ برائی نظر کیوں نہیں آرہی۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف سنائے جانے والا فیصلہ بظاہر تو غیر معمولی ہے مگر معمولی بننے تک صرف اتنا فاصلہ ہے کہ ڈیل ہوتی ہے یا نہیں؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔