اپنی کرکٹ کے شباب پر رمیز راجہ جارحیت سے پہچانے جاتے تھے۔ کرکٹ پر مبصر ہوئے تو بھی لہجے کی کاٹ ہی شناخت بنی اور پھر جب عمران خان کی جنبشِ قلم سے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے مدارالمہام ہورہے تو یہ جارحیت پورے رچاؤ سے تماشہ گر ہوئی۔
اگرچہ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ بطور چیئرمین، رمیز کا عہد مالی اعتبار سے زیادہ ناقص رہا یا انتظامی اعتبار سے، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ تمام تر سیاسی قلابازیوں اور بصری شعبدے بازیوں کے بِیچ، وہ ایشیا کپ اور چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کے لیے پاکستان کا مقدمہ جیت گئے۔
لیکن اسی اہتمامی جارحیت اور ‘وقت کم مقابلہ سخت’ کی دوڑ میں وہ نیوزی لینڈ کی یہ طویل ٹی20 سیریز بھی پاکستان کو ہدیہ کرگئے جو کل شب جیمز نیشم کے ہنگامہ خیز آخری اوور کے بعد بھی وسیع تر معنویت سے عاری نظر آتی ہے۔
ڈیڑھ برس پہلے ایک مبہم سیکیورٹی الرٹ کے جواز سے ریاستی سطح کی سیکیورٹی کو ٹھکراتے ہوئے نیوزی لینڈ نے جس سنگ دِلی کا اظہار کیا تھا، ڈیڑھ برس بعد وہی سنگ دِلی کیوی کرکٹ کی ستم ظریفی بن چکی ہے اور ٹام لیتھم کی قیادت میں سر نیہوڑائے کچھ نوجوان پاکستان کرکٹ کے اسٹارڈم کی ٹھوکر پر ہیں۔
کہنے کو ایک کیوی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے مگر عید کی شاپنگ میں مصروف شائقین اور قذافی اسٹیڈیم کو سیاسی اکھاڑہ بناتی نعرے بازی کے ہنگام یہ سوال بھی اپنی معنویت کھو چکا ہے کہ بھلا یہ کیسی کیوی ٹیم ہوئی جو اپنے سبھی چنیدہ مہرے واہگہ کے پرے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی گنگا نہاتے چھوڑ آئی ہے۔
پاکستان کے دوروں پر بھرتی کی ٹیمیں بھیجنا کیوی کرکٹ کا دیرینہ مشغلہ رہا ہے اور رمیز راجہ کے ایک غضب ناک ٹویٹ کی کوکھ سے جنمی یہ مفاہمتی ٹی20 سیریز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کل شب کے سنسنی خیز مقابلے میں اپنی تمام تر دلچسپی گنوانے سے بال بال بچ گئی۔
اس ہنگامے میں کچھ معنویت بہرحال بابر اعظم کے لیے ضرور اجاگر ہوئی ہے جو ایک نوآموز اٹیک کو رگیدتے ہوئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں پر اٹھتی تنقید بھی سہما چکے ہیں۔ مگر کرکٹنگ نوعیت کا کوئی بھی مقدمہ طے کرنے کو یہ سیریز ایک موزوں نظیر نہیں ہوسکتی۔
اگر ٹم ساؤتھی، ٹرینٹ بولٹ، لوکی فیرگسن، مچل سینٹنر، مائیکل بریسویل، فِن ایلن، گلین فلپس اور کین ولیمسن آئی پی ایل کی بساط پر ہنر آزمانے کے بجائے لاہور میں کیوی کرکٹ کے وقار کا مقدمہ لڑ رہے ہوتے تو کھیل کسی بحث کا متقاضی ہوتا۔ یہاں ٹام لیتھم جس طرح ایک نوآموز ٹیم کے ہمراہ مزاحمت پر مائل ہیں، یہ بہت دشوار طلب کام ہے اور اس تناظر میں دورے پر پہلی فتح یقیناً قابلِ داد ہے۔
مگر جو وسائل پاکستان کرکٹ کو بہم ہیں، اگلے 2 میچ بھی کیویز کے لیے پہلے 2 میچ سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔ یوں رحمتوں بھرے مہینے میں یہ ٹی20 سیریز بھی پاکستان کرکٹ کے ‘اسٹیٹس-کو’ کے لیے کسی رحمت سے کم ثابت نہیں ہوئی۔
ٹی وی رائٹس کی کمائی سے پی سی بی کا خسارہ بھی بھر جائے گا، کچھ خوانچہ فروش بھی دیہاڑی جما پائیں گے اور یوں ون ڈے کرکٹ سے لدے کیلنڈر میں اوپر تلے ٹی20 کھیل کر پاکستان کی کرکٹنگ عظمت بھی نمایاں ہوتی رہے گی۔
اگرچہ بے تحاشہ کرکٹ بھی کسی آرٹ کی بے توقیری کے مترادف ہے مگر اس بحث کے پرے بھی، ایشیا کپ اور ورلڈ کپ سے پہلے شاہین آفریدی کی فٹنس اور بابر اعظم کی فارم کو یوں آزمائے چلے جانا کوئی دانش مندی نہیں ہوسکتی۔
یہ امر خوش کُن ہے کہ پاکستانی ڈریسنگ روم کے ہاں اب وسائل کی بہتات ہوچکی ہے اور اگر فیصلے ہجوم کے خوف سے بالا برتے جائیں تو یہ جاننا دشوار نہیں کہ ہر میچ کھیلنا بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بھی مفاد میں نہیں کیونکہ جب کیوی کرکٹ اتنی ہی بے سر و سامان اتری تھی تو مقابل وہ باؤلنگ اٹیک بھی کافی تھا جو ابھی ابھی افغانستان کے خلاف سیریز کھیل کر لوٹا ہے۔
مگر کیا کیجے کہ جب کرکٹ کلچر کا تزویراتی رخ پریس گیلری کی مزاج شناسی سے طے ہونے لگے اور قبلہ ٹاک شوز کے مبصرین کی امامت میں سُدھارا جانے لگے، وہاں کپتان کوئی بھی ہو، ڈریسنگ روم کوئی سا بھی ہو، منتظمین دیسی ہوں یا گورے، فیصلے ہمیشہ ہوا کے رخ میں ہی ہوتے نظر آئیں گے۔
ستمبر 2021 میں میچ سے عین آدھے گھنٹے پہلے اچانک سیریز چھوڑ کر وطن لوٹنا کیوی کرکٹ کی تزویراتی حماقت تھی۔ یہ کرکٹ کی روح سے بھی سنگ دِلی تھی۔ مگر اس کے بدل محض براڈکاسٹرز کے تفننِ طبع کو، ایسے بے کیف مہروں سے بساط سجانا بھی ستم ظریفی سے کم نہیں۔
کیوی کرکٹ کی تو جو جگ ہنسائی ہو سو ہو، نفع پاکستان کرکٹ بھی کچھ خاص کما نہ پائے گی۔