تہذیب یافتہ گھرانوں کی یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جب بھی کسی نومولود کی آمد ہوتی ہے، تو اس کی تذکیر و تانیث کو مد نظر رکھتے ہوئے خاندان کے بزرگ افراد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اس کو ایک نام دیں۔ یہ نام پرانے آباء کا بھی ہوسکتا ہے، کسی مذہبی و سیاسی پیشوا کا بھی ہو سکتا ہے اور کسی دوسری زبان سے مستعار لیکر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ حسنین کریمین کے نام طبرانی زبان میں شبر و شبیر تھے، عربی میں حسنؑ و حسینؑ ہوگئے اسی طرح نئے دور اور اُردو کی بات کی جائے تو ترکش نام یاماچ اُردو میں شجاع بنتا ہے۔ اب آپ اپنے نومولود کے لیے اپنی پسند کے مطابق کوئی بھی نام رکھ سکتے ہیں۔
یہ نومولود اسم بہ مسمیٰ ہوگا یا نہیں، یہ مستقبل بعید کا مسئلہ ہے
مختلف علاقوں اور قوموں میں نام رکھنے کا راز و انداز الگ اور نرالا بھی ہے، جیسے سمندر خان، دریا خان، گاما، ماجھا، ڈینو وغیرہ وغیرہ یہاں کچھ نام تو خاندان والوں نے رکھے ہیں اور باقی نام معاشرے نے بگاڑ کر بنا دیے ہیں، ان دیے گئے ناموں میں آپ کی مرضی شامل تھی یا نہیں یہ تو آپ ہی جانتے ہیں۔
لیکن آپ اپنا نام خود بھی رکھتے ہیں۔ جیسے لکھاری اپنا قلمی نام رکھ لیتے ہیں، مثال کے طور پر سید احمد شاہ کا قلمی نام احمد فراز ہے۔ ان کا قلمی نام اس قدر مقبول ہوا کہ وہ خود کہتے ہیں۔
اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
پڑوسی ملک بھارت کے بڑے اداکار عبد الرشید نے بھی اپنا فلمی نام سلمان خان رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جو افراد بیرون ملک سفر کرتے ہیں، وہ اس ملک کے لحاظ سے اپنے نام میں جدت لاتے ہیں اور ان کے نام جیسی مطابقت یا مشابہت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے آپ کو ایک مشور ہ دیتے ہیں۔ جب بھی کوئی نام اپنے لیے پسند کریں اس کے معنی ضرور پتہ کرلیں اور نام کا صنف سے تعلق بھی واضح کرلیں۔
آج کل چین میں ہوں تو یہاں اگر آپ بینک جائیں یا ویزہ کی تاریخ بڑھانے جائیں تو وہ آپ سے باقاعدہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپکا کوئی چینی نام بھی ہے۔ اگر آپ نے اپنا کوئی چینی نام رکھا ہو تو وہ آپ کی دستاویزات کا حصہ بن جاتا ہے۔ لیکن کچھ افراد بنا سوچے سمجھے، دیکھے بھالے اور بنا پوچھے ہی کوئی نام رکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے ملک کے افراد ان کے نئے نام کا مطلب جان کر آپ کا تمسخر اُڑاتے نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ بہت سے غیر ملکیوں کے لیے ایک چینی نام رکھنا اچھا اور دلچسپ ہے، جیسا کہ ّلی بائیٗ نامی کینیڈین لڑکی (لی بائی، مرد، ایک ہزار سال پہلے ایک قدیم چینی شاعر تھا)، زاؤ زاؤ نامی ایک امریکی لڑکا (زاؤ زاؤ ایک جنگجو تھا جو دو ہزار سال پہلے چین میں شاہی اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا تھا) وغیرہ شامل ہیں۔ پھر جب چینی لوگ ان غیر ملکیوں کو اپنے ذہنوں میں قدیم چینی شخصیات کے ساتھ جوڑتے ہیں تو وہ اس ہنسی میں لوٹ پوٹ جاتے ہیں۔
اگر آپ چین میں آئیں اور کوئی آپ کو کہے کہ جناب! آپ اپنا نام چاؤ بن شان رکھ لیں تو ضرور اس نام کے حوالے سے معلومات لیں کیونکہ یہ چین کا سب سے بڑا مزاحیہ کردار ہے، اور یہ نام بھی اب مزاح کے ساتھ جڑ چکا ہے یہ بالکل ہمارے ببو برال، امانت چن جیسا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ نام رکھنے سے لوگ آپ میں کس کی شخصیت تلاش کریں گے۔
یعنی آپ کی حرکات و سکنات عوام کو آپ کے بارے رائے قائم کرنے کے لیے بہتر ثبوت فراہم کریں گی اور نام کی نمود بھی خوب ہوگی، لیکن خیال رکھیے نمود و نمائش اور شہرت طلبی آپ کو کہیں اس حد تک نہ لا کھڑا کرے۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
ایک اور اہم بات اور وہ یہ ہے کہ آپ میں بہت سے افراد گھر میں اپنے بچوں کو ٹونی، ببلی اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہہ کر یقیناً پیار سے بلاتے ہیں لیکن آپ ہی وہ پہلے افراد ہوتے ہیں جو دیگر افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آپ کے بچے کو کسی بھی اُلٹے سیدھے نام سے پکار سکتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا آپ کی ہی ذمہ داری ہے کہ آپ نے جب بچے کو ایک بہترین نام دیا ہے تو پھر اسی نام سے پکاریں تاکہ دیگر افراد بھی نام بگاڑنے کی جرات نہ کر پائیں۔
آج آپ اپنے بچوں کو اچھے نام دیں اور درست نام سے پکاریں تویقیناً کل یہ نہ تو آپ کا اور نہ ہی خاندان کا نام بدنام کریں گے اور یقیناً اپنے حسب و نسب کا بہترین اور عمدہ انداز میں خیال رکھیں گے۔