سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی توہین عدالت کارروائی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ توہین عدالت کیس کے فیصلے میں مبینہ طور پر توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس پاکستان کو بھی شامل کیا گیا، کیا توہین کے ملزم بن کر چیف جسٹس خود بینچ بنا سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی ہے، تاہم دوران سماعت ججز کے اختلافی ریمارکس سامنے آئے۔ عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ بینچ کی اکثریت انٹراکورٹ اپیل نمٹانے کی وجوہات دے گی، جسٹس اطہر من اور جسٹس شاہد وحید نے درخواست بغیر وجوہات واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی وجوہات جاری کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت آئینی کمیٹیوں کے خلاف ہونی چاہیے: سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی توہین عدالت کارروائی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی۔ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس اور ان کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال مندوخیل نے درخواستگزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا دعویٰ واپس لے سکتے ہیں، درخواست نہیں، درخواست اب ہمارے سامنے لگ چکی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ اپنی اپیل کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، جس پر نذر عباس کے وکیل نے جواب دیا کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل بولے، ’ایسا تھا تو آپ پہلے بتا دیتے‘۔
’اپیل واپس نہیں لی جاسکتی‘
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا توہین عدالت کارروائی ختم ہونے کا آرڈر آچکا ہے، جس پر نذر عباس کے وکیل نے بتایا کہ آرڈر آچکا ہے۔ بعدازاں، وکیل عدالت میں جسٹس منصور کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ انٹرا کورٹ اپیل واپس لینا چاہتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنا کلیم واپس لے سکتے ہیں لیکن اپیل واپس نہیں لی جاسکتی، آپ کمرہ عدالت سے باہر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس: جسٹس منصور کا بینچ میں 2 ججز پر اعتراض
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل سوال اٹھایا کہ جب توہین عدالت کی کارروائی ختم کردی گئی ہے تو پھر آرڈر کیسے دیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے، ’اس فیصلے میں تو مبینہ طور پر توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس پاکستان کو بھی شامل کیا گیا، کیا مبینہ طور پر توہین کرنے والے فل کورٹ تشکیل دیں گے، مرکزی کیس آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہے‘۔
’ہمیں نوٹس دے دیتے، ہم 4 ججز عدالت میں پیش ہوجاتے‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ توہین عدالت قانون میں پورا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے، دونوں کمیٹیوں کو توہین کرنے والے کے طور پر ہولڈ کیا گیا، طریقہ کار تو یہ ہوتا ہے کہ پہلے نوٹس دیا جاتا ہے، ساری دنیا کے لیے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ کیا ججز کے لیے آرٹیکل 10 اے دستیاب نہیں، جو فل کورٹ بنے گا، کیا اس میں مبینہ توہین کرنے والے 4 ججز بھی شامل ہوں گے، ہمیں نوٹس دے دیتے ہم 4 ججز ان کی عدالت میں پیش ہوجاتے۔
’میں بینچ سے الگ ہوجاؤں گا‘
جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ انٹراکورٹ اپیل میں وہ معاملہ جو عدالت کے سامنے ہی نہیں، کیا اسے دیکھ سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تو کیا ہم بھی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کریں۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، مناسب ہوگا ججز کراس ٹاک نہ کریں۔ اسی دوران جسٹس اطہر من اللہ نے بینچ سے الگ ہونے کا عندیہ دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بینچز اختیارات کا معاملہ: سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
جسٹس اطہر من اللہ بولے، ’اگر یہ بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں بینچ سے الگ ہو جاؤں گا، ہمارے سامنے اس وقت کوئی کیس ہے ہی نہیں، ہمارے سامنے جو اپیل تھی وہ غیرمؤثر ہوچکی، اگر بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں معذرت کروں گا‘۔
6 رکنی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے پر سوالات اٹھادیے
سماعت کے دوران 6 رکنی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے پر سوالات اٹھا دیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس فیصلے میں تو کمیٹی ارکان کو توہین کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کو توہین کا مرتکب کہہ کر انہیں فل کورٹ بنانے کا کہا گیا ہے، کیا توہین کے ملزم بن کر چیف جسٹس خود بنچ بنا سکتے ہیں، اگر مرتکب قرار دیا تھا تو پھر فل کورٹ کی کیا ضرورت تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2 رکنی بینچ پھر بس کارروائی شروع کردیتا، جسٹس محمد علی مظہر نے خیال ظاہر کیا کہ توہین کے کیس میں پہلے جس پر الزام ہو اس کا مؤقف سنا جاتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل سب کے لیے ہے تو کیا ججز کے لیے نہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے بھی پوچھا کہ ہمارے سامنے یہ فیصلہ چیلنج نہیں ہوا، ہم کیوں اس پر جارہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر پھر بولے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ہم بطور جج اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں۔
’روز کا جو تماشہ لگا ہوا ہے، یہ تماشا تو ختم ہو‘
بعدازاں، عدالت نے اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کا حکم دیا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اٹارنی جنرل کسی میٹنگ میں گئے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے سوال کیا کہ آپ کا اس سارے معاملے کے حوالے سے کیا مؤقف ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک مسئلہ ہے کہ یہ فیصلہ ہمارے سامنے چیلنج نہیں ہے، ہم تب ہی اس فیصلے کا جائزہ لے سکتے ہیں جب چیلنج ہوا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ بینچز اختیارات کا معاملہ: ایڈیشنل رجسٹرار فارغ، جسٹس منصور آرٹیکل 191 اے کا جائزہ لیں گے
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ اگر فیصلے پرازخود نوٹس لینا ہے تو اس کا اختیار آئینی بینچ کے پاس ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خدانخواستہ اس وقت ہم سب بھی توہین عدالت تو نہیں کررہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اب یہ فیصلہ عدالتی پراپرٹی ہے، ایک بار اس سارے معاملے کو دیکھ لیتےہیں، روز کا جو تماشہ لگا ہوا ہے، یہ تماشا تو ختم ہو، دیکھ لیتے ہیں یہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کیسے ہوئی، دیکھ لیتے ہیں کہ کیا کمیٹیوں کے فیصلے اس بینچ کے سامنے چیلنج ہوئے تھے۔
’ایسی صورت میں کسی ہمسایہ ملک کے ججز لانا پڑیں گے‘
جسٹس جمال مندوخیل نے بات جاری رکھی کہ کہا گیا ہے کہ ہمارا مفادات کا معاملہ ہے، اس لیے ہم نہ بیٹھیں، آج مفادات والے معاملے پر مجھے بول لینے دیں، آئینی بینچ میں شامل کرکے ہمیں کون سی مراعات دی گئی ہیں، ہم 2، 2 بینچ روزانہ چلارہے ہیں، یہ مفادات ہیں؟
انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اگر آئینی بینچ میں بیٹھنا ہمارا مفاد ہے تو پھر جو نہیں شامل وہ متاثرین میں آئیں گے، مفادات والے اور متاثرین دونوں یہ کیس پھر نہیں سن سکتے، ایسی صورت میں پھر کسی ہمسایہ ملک کے ججز لانا پڑیں گے، کوئی ایک وکیل مجھے بتا دے کہ ہمیں آئینی بینچ میں بیٹھ کر کیا مفاد مل رہا ہے، ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرنا ہے، کیا ہم خود شوق سے آئینی بینچ میں بیٹھے ہیں؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا، ’جس انداز میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا، میں کمیٹی اجلاس میں نہیں جاؤں گا، توہین عدالت کے نوٹس کا سلسلہ رکے، اس لیے چاہتے ہیں ایسے حکم جاری نہ ہوں، آنے والے ساتھی ججز کو توہین عدالت سے بچانا چاہتے ہیں‘۔
’6 ججز کا خط آیا تو سب نے نظریں پھیر لیں‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج ایک سینیئر سیاستدان کا بیان چھپا ہوا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ملک کو آئین کے مطابق نہیں چلایا جا رہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ تاریخ سے سبق نہ ججز نے سیکھا، نہ سیاستدانوں اور نہ ہی قوم نے، 6 ججز کا عدلیہ میں مداخلت کا خط آیا تو سب نے نظریں ہی پھیر لیں۔
یہ بھی پڑھیں: ججز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے کا معاملہ، سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عہدے سے فارغ
اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ تیسری مرتبہ یہ بات کہ رہے ہیں۔ تاہم، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم صرف اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ موجودہ بینچ کے سامنے کوئی کیس ہی نہیں تو اٹارنی جنرل کو کس نکتے پر سننا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں جس علاقہ سے تعلق رکھتا ہوں وہاں روایات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس مرتبہ روایات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔
’اگر ہم آرڈر کریں اور فل کورٹ نہ بنے تو ایک اور توہین عدالت شروع ہوجائے گی؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل شاہد حمید سے سوال کیا کہ کیا آپ نے 2 رکنی بینچ میں فل کورٹ کی استدعا کی تھی، جس پر وکیل نے بتایا کہ اس بینچ میں بھی استدعا کررہا ہوں کہ فل کورٹ ہی اس مسئلے کو حل کرے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ہم آرڈر کریں اور فل کورٹ نہ بنے تو ایک اور توہین عدالت شروع ہوجائے گی۔
بعدازاں، سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ بینچ کی اکثریت انٹراکورٹ اپیل نمٹانے کی وجوہات دے گی، جسٹس اطہر من اور جسٹس شاہد وحید نے درخواست بغیر وجوہات واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دیا، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی وجوہات جاری کریں گے۔
واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے آج سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت نوٹس واپس لے لیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے جان بوجھ کر توہین عدالت نہیں کی، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، ایک کمیٹی نے عدالتی حکم نظرانداز کر کے کیس واپس لیا، دوسری کمیٹی نے بھی عدالتی احکامات کیخلاف جا کر کیس اپنے پاس لگایا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ججز کمیٹیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجا جاتا ہے، چیف اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیں۔













