الیکشن کمیشن آف پاکستان، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے پنجاب میں انتخابات کے لیے فنڈز کی فراہمی کے معاملے پر رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرا دی ہے۔
الیکشن کمیشن کے حکام سپریم کورٹ پہنچے جہاں انہوں نے اپنی رپورٹ جمع کرائی اور یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہمیں انتخابات کرانے کے لیے فنڈز مہیا نہیں کیے گئے۔ ابھی تک اسٹیٹ بینک نے ہمیں رقم منتقل نہیں کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مندرجات
الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مندرجات سامنے آ گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات موزوں رہیں گے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ہم نے پاک فوج، ایف سی اور رینجرز کے لیے وفاقی حکومت کو خط لکھا ہے جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
انتخابات کے لیے فنڈز اور امن و امان کے لیے فورس کی عدم فراہمی سے 14 مئی کو انتخاب ناممکن ہوتا جارہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بروقت فنڈز دیے گئے نہ ہی سیکیورٹی، اب 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانا ممکن نہیں رہا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے رقم کی ادائیگی کی آج آخری تاریخ تھی۔ بروقت چھپائی نہ ہوئی تو ذمہ دار نہیں، تصویروں والی انتخابی فہرستوں کی چھپائی پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کو انتخابات کی تاریخ زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر دی تھی۔ الیکشن کمیشن یقین رکھتا ہے کہ اگر اس راستہ کو نہ اپنایا گیا تو ملک میں انارکی پھیلے گی۔
الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کے لیے پولیس اہلکاروں کی دستیاب تعداد 81 ہزار 50 ہے جبکہ ضرورت 4 لاکھ 66 ہزار کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے آپریشنز میں مصروف ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ایک دن میں الیکشن ہونے کے مقابلے میں اخراجات کا زیادہ ہونا حیران کن نہیں۔ انتخابات کے لیے ہونے والے اخراجات میں سیکیورٹی نظام کی نقل وحرکت شامل ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرحلہ وار الیکشن کروانے سے تشدد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک حلقہ میں ہارنے والی جماعت دوسرے فیز میں دوسرے حلقے میں تشدد اپنا سکتی ہے جبکہ دوسرے فیز میں نتائج پر اثر انداز ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ مختلف فیز میں انتخابات کروانے سے شر پسندوں کی جانب سے حملوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ 1970 اور 1977 میں انتخابات فیزز میں کروائے گئے اور اس وقت 1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے نتائج کا اعلان پہلے ہونے سے جو جماعتیں مرکز میں جیتیں ان کے حامیوں میں صوبائی سطح پر بھی پہلے ہی جیت کا سماں تھا۔
1977 کے انتخابات میں بھی ہارنے والی جماعتوں نے بعد کے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگایا۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ فیزز میں انتخابات کرانے کا حکم دیتی ہے تو بھی پنجاب کے لیے 6 ماہ کی مدت درکار ہوگی۔ ٹکڑوں میں انتخابات کروانے سے 6 ماہ سے بھی زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کی رپورٹ بھی سر بمہر لفافے میں جمع
اس کے علاوہ وزارت خزانہ کے حکام نے بھی سر بمہر لفافے میں رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرادی ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے الیکشن کے لیے فنڈز کی فراہمی سے متعلق رپورٹ سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب نے عدالت میں جمع کرائی۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں وفاقی کابینہ کے اس حوالے سے فیصلے اور پارلیمنٹ کو معاملہ بھجوانے کی تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ قانونی نکات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی الیکشن کے لیے رقم کی منتقلی کے حوالے سے رپورٹ جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ رقم منتقل نہ کرنے کی کچھ وجوہات ہیں۔
اب ان تینوں اداروں کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے ممبر ججوں کو بھجوائی جائیں گی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب میں عام انتخابات کرانے کے لیے منگل کے روز فنڈز جاری کرنے کے حوالے سے عملدرآمد رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم دیا تھا کہ پیر کے روز تک 21 ارب روپے براہِ راست الیکشن کمیشن کو جاری کر دیے جائیں لیکن گزشتہ روز قومی اسمبلی نے ایک بار پھر فنڈز کے اجرا کو مسترد کر دیا تھا۔
پیر کے روز ہی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے اظہار کیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے ہمیں 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کا حکم دیا ہے جس پر ہم نے رقم مختص کر دی ہے مگر ہمارے پاس اجرا کا اختیار نہیں ہے۔