ٰپاکستان ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ جسٹس منیر کا غلط عدالتی فیصلہ تھا، جسٹس قاضی فائزعیسی

بدھ 19 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا۔ اس وقت جسٹس منیر نے جو زہریلا بیج بویا وہ 1971 میں پاکستان کے دو لخت ہونے کا باعث بنا۔  پھر 1977 میں الیکشن ہوئے تو الزام لگایا گیا کہ صاف شفاف نہیں ہوئےتو ایک آمر نے ملک پر قبضہ کرلیا اور 11 سال تک ملک پر مسلط رہا۔

اسلام آباد میں آئینِ پاکستان کی گولڈن جوبلی سے متعلق تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آئین پاکستان کی 50ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ یہ آئین میری کتاب نہیں، اس کتاب میں عوام کے حقوق ہیں۔ آئین کو اب ایسے پیش نہیں کیا جاتا جس کا وہ مستحق ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے مطابق جسٹس منیر نے  جو زہریلا بیج بویا اس کے نتیجہ میں 1971 میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس وقت قوم کا سر جھکا ہوا تھا قوم شرمندہ تھی۔ اسکے بعد 1977 میں ایک ڈکٹیٹر آ کر قابض ہوگیا جو 11 سال تک ملک پر مسلط رہا۔

’اسکے وقت جب عدالتوں میں کیسز آئے تو ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔ اس کے بعد زبردستی 8ویں ترمیم منظور کرائی گئی تب جا کر مارشل لا ہٹایا گیا۔ بعد ازاں اس شخص کا جہاز کے حادثہ میں انتقال ہوا‘۔

جسٹس فائز عیسٰی کے مطابق یہاں پر ایک اور نفرت کا بیچ 58 ٹو بی کی شکل میں آیا، جس کے تحت ایک بار بینظیر اور دوسری بار نواز شریف کی حکومت گرائی گئی۔ غلام اسحاق خان نے بھی 58 ٹوبی کا استعمال 2 بار کیا۔

‘اگر تاریخ دہرانی نہیں ہے تو تاریخ سے سیکھیں۔ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا تحفظ اور دفاع کریں گے۔’

آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں شرکت کیوں کی؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وضاحت کردی

ان کا کہنا تھا کہ 23مارچ 1940 کی قرارداد اہم ہے جس کے بعد 1947 میں پاکستان وجود میں آیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بنیادی مسئلہ آئین کا تھا، قرار داد مقاصد کو بھی آنے میں دو سال لگے تھے۔

جسٹس فائز عیسی کا کہنا تھا کہ سوموٹو کا لفظ آئین میں کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ ہندوستان کے جج میرے ساتھ بیٹھے تھے تو سومٹو کا نام لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے۔

ان کے مطابق 184 تین کی جو بات ہوتی ہے وہ اختیار سپریم کورٹ کو دیتی ہے کہ جب مفاد عامہ کا کوئی کیس ہو یا بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے کوئی کام ہو تو اسے پورا کرنا لازمی ہے۔ میری سمجھ کے مطابق یہ شق اس لیے رکھی گئی تھی کہ جو لوگ عدالتوں تک نہ پہنچ سکتے ہوں اور اس سے بنیادی معاشرتی حقوق متاثر ہو رہے ہوں جیسے کہ “مظلوموں، مزدوروں، خواتین جن کو تعلیم سے دور رکھا جارہا ہو، یا بچوں سے زبردستی کام کرایا جا رہا ہو “انکو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

’میرے دوستوں کی رائے ہے کہ یہ ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ آئین یہ نہیں کہتا ۔ اگر کہتا ہے تو مجھے بتا دیں تا کہ میری اصلاح ہو جائے اور میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں۔‘

قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہیں جب عدالت بیٹھتی ہے تو اس کو سپریم کورٹ کہا جاتا ہے، جب سے جج  بنا ہوں کبھی گزارش نہیں کی کہ اس بینچ  کاحصہ بنا دیں یا اس بینچ کا یہاں تک کہ بلوچستان میں چیف جسٹس تھا تو کیسز رجسٹرارمقرر کرتے تھےعدلیہ کی بات نہیں کررہا مگر بہتر ہے متحد ہو کر  سب کی رائے سنیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے مطابق ’یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم غیر قانونی فیصلے کریں اوریہ قانونی لگیں۔ طرح طرح کے آرڈر جاری کیے جاتے ہیں پتہ نہیں کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اگر سب ہاں میں سر ہلانا شروع کر دیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہو جائے گی۔ ‘

انکا کہنا تھا کہ پہلی بار الیکشن سے متعلق ایسا وقت آیا ہے مگر میں اس پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتا ہوں میں رائے بنانے سے پہلے دوسروں کو سننا پسند کرتا ہوں لیکن اب کوئی اور نہ کرے تو اسکی مرضی ہے۔ تکبر اور انا بری چیز ہے جس دن مجھ میں تکبر آگیا میں جج نہیں رہوں گا۔

گاڑی نہ سیکیورٹی پروٹوکول، جسٹس قاضی فائز عیسٰی پیدل ہی سپریم کورٹ آتے ہیں

قاضی فائز عیسی نے یہ بھی کہا کہ آئین پر بہت وار کیے گئے ہیں یہ توآئین کا حوصلہ ہے کہ آج بھی کھڑا ہے۔ 2010 میں کی گئی 18 ویں ترمیم نے تو آئین کی شکل و صورت  ہی بگاڑ دی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp