جمعہ 31 جنوری 2025 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک خط لکھا گیا، اور اس کی نقول صدرپاکستان سمیت دیگر متعلقہ اٹھارٹیز کو بھی ارسال کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں:ایک اور بحران؟ دوسری ہائیکورٹ سے جج لاکر چیف جسٹس نہ بنایا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا یحییٰ آفریدی کو خط
کئی صفحات پر مبنی اس خط میں ٹیپ کا بند یہ تھا کہ ’اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے چیف جسٹس کا انتخاب موجودہ ججز ہی میں سے کیا جائے، اور اس کے لیے کسی بھی صوبے کی ہائیکورٹس کے جج کی خدمات نہ لی جائیں‘۔
اس خط میں کیے گئے مطالبے سے بھی زیادہ اہم بلکہ خطرناک بات یہ تھی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اعلیٰ ترین ججز جنہوں نے نہ صرف آئین و قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے، بلکہ وہ خود قانون کے پاسدار بھی ہیں، ان کی جانب سے دھڑے بندی بلکہ یونین سازی کی فضا پیدا کی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹس کے ان ججز کی روش قانون ہی کے خلاف نہیں بلکہ اس اخلاقی ضابطے سے بھی انحراف ہے، جس پر پابند رہنے کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔
ذاتی خواہش یا آئینی اقدام؟
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ صوبائی ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ صدر پاکستان یا کسی اور کی ذاتی خواہش سے بالاتر ایک سراسر آئینی اور قانونی اقدام ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق صدر پاکستان اس طرح کے تبادلے چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ مشاورت سے کر سکتے ہیں۔
ججز سے مشاورت
اس طرح کے فیصلوں میں متعلقہ ہائیکورٹس کے دونوں چیف جسٹسز سے بھی مشاورت کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس فیصلے پر پاکستان کے 5 چیف جسٹسز کا اتفاق ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ججز کا خط بے نتیجہ نکلا، مختلف صوبوں سے 3 ججز کا اسلام آبادہائیکورٹ تبادلہ
پھر یہ تبادلہ زبردستی نہیں کیا گیا بلکہ اس میں تبادلہ پانے والے ججز کی رضامندی بھی شامل ہے۔چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ وفاق کی علامت ہے، لہٰذا دیگر صوبوں سے ایسی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

تاریخی نظائر:
جسٹس سردار محمد اسلم
ججز کا دیگر صوبوں سے اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، اس لیے کہ جسٹس سردار محمد اسلم جو لاہور ہائی کورٹ (LHC) میں خدمات انجام دے رہے تھے، کو فروری 2008 میں IHC میں ٹرانسفر کر دیا گیا اور اس کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔
جسٹس ایم بلال خان
اس کے علاوہ جسٹس ایم بلال خان لاہور ہائیکورٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے، 2009 میں ان کا تبادلہ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا اور انہوں نے چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آبادہائیکورٹ کے ججز کا خط: اہم نکات کیا ہیں؟
جسٹس اقبال حمید الرحمان
پھر جسٹس اقبال حمید الرحمان بھی لاہور ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوئے، انہیں 18ویں ترمیم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔
ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام اسلام آباد ہائیکورٹ کے منتخب ججز کا خط ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ذاتی مفاد یا فائدہ ان کے رویے پر کبھی اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان ایک فیڈریشن
آئین کے آرٹیکل 1 کے مطابق پاکستان ایک فیڈریشن ہے، جس کی صوبائی اکائیاں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر مشتمل ہیں۔ تمام صوبوں میں عدالتی نظام کی نگرانی کے لیے ہائی کورٹس قائم ہیں، جو خودمختار حیثیت رکھتی ہیں۔

اسلام آباد وفاق کی علامت
اسلام آباد، بطور دارالحکومت، وفاق کی علامت ہے، جہاں تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے۔ لہٰذا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تمام صوبوں سے ججز کی شمولیت ضروری ہے۔
صدر کا اختیار
اس تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے، ججز کی تقرری اور تبادلے سے متعلق صدر کا اختیار نہ صرف آئینی طور پر جائز ہے بلکہ یہ وفاق کے استحکام کے لیے بھی سودمند ثابت ہوگا۔
تبادلے کا فیصلہ کہاں ہوا؟
صوبائی ہائیکورٹس میں فرائض انجام دینے والے ججز کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے کا فیصلہ پاکستان کے اعلیٰ ترین دفاتر نے کیا ہے، لہٰذا کسی بھی آئینی اقدام کیخلاف کسی بھی نوعیت کے احتجاج کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 واشگاف الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ 12 ججز پہ مشتمل ہو گی، جو کے صوبوں اور پاکستان کے تمام علاقوں سے آئین کے مطابق لائے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 200 صدر پاکستان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی جج کی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔
ان 3 ججز کے ٹرانسفر میں صرف صدر پاکستان کی منشا نہیں بلکہ 5 چیف جسٹسس کی رضا شامل ہے۔ چنانچہ یہ عمل نہ صرف آئینی طور پر مکمل اور شفاف ہے، بلکہ فیڈریشن کے لیے بہتر ہے، کیونکہ اس سے 3 صوبوں کے ججز کو فیڈرل کیپیٹل کی ہائیکورٹ میں نمائندگی دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ہائیکورٹ میں ججز کی تعنیاتی، اسلام آباد بار کونسل کا کل ہائیکورٹ اور ضلعی عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان
اسلام آباد ہائیکورٹ کی بنیاد فیڈرل کیپیٹل کورٹ کی صورت میں رکھی گئی تھی، جو اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 کے سیکشن 4 اور متن سے واضح ہے۔ چنانچہ یہ ہائیکورٹ تمام صوبوں اور علاقوں کی نمائندہ کورٹ ہے۔
یہ کوئی انہونی صورت حال نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ججز دوسری ہائیکورٹس سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہو چکے ہیں۔
کرسی کی خواہش
یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ چند ججز اپنی کرسی کی خواہش میں ایک آئینی عمل پہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ ان ججز نے اسی آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔

26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپنی بالادستی واپس لی ہے۔ اب پاکستان میں وہ نظام نہیں رہا کہ چند ججز کا گروپ بیٹھ کے فیصلے کرتا تھا کے اگلے 10-20 سال تک چیف جسٹس کون بنے گا۔














