ہالی ووڈ فلم ‘ چارلی ولسن’ میں جب چارلی ولسن امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے افغانستان میں روس کے خلاف مذہب کو استعمال کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے تو اسے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا صدر کہتا ہے کہ تم ایک ایسے معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کو استعمال کرنا چاہتے ہو جہاں ایک نابینا لڑکی ریپ کے بعد جیل میں اس لیے بند ہے کیونکہ پاکستانی قانون کو چار بالغ گواہ نہیں ملے، وہاں مذہبی انتہا پسندی سوویت فوج سے زیادہ تباہی لائے گی۔ صدر کے خدشات درست تھے اس سانحے کے بعد کس قدر تباہی پاکستانی قوم و ملک کا مقدر بنی اس کی مثال نہیں ملتی۔
دہشتگردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہم نے آج تک چار بڑے اور درجنوں چھوٹے آپریشنز کیے، کھربوں روپے خرچ کیے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بے گناہ اس جنگ کا ایندھن بنے۔ سوال یہ ہے کہ ان آپریشنز کا نتیجہ کیا نکلا؟ ہر آپریشن کے بعد ایک ہی بیان سننے کو ملا کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔
دہشت گردوں کی کمر کس حد تک توڑی گئی اس بابت تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اس ملک و قوم کی کمر واقعی ٹوٹ چکی ہے۔ خبر یہ ہے کہ ہم ایک آپریشن کی تیار کر رہے ہیں جبکہ سوال پھر وہی ہے کہ پہلے چار آپریشنز سے کیا فرق پڑا؟ آئیے مل کر اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔
پاکستانی فوج کی طرف سے ان درجنوں آپریشنز کو ہم اپنی سہولت کے لیے دو ادوار میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ان آپریشنز کا پہلا دور نائن الیون سے لے کر2009 تک ہے اور دوسرا دور 2009 میں جی ایچ کیو پر ہونے والے حملہ سے لے کر 2017 میں آپریشن رد الفساد تک ہے۔
دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پہلے حصے میں پاکستانی افواج نے 2001 سے لے کر 2009تک کئی چھوٹے آپریشنز کے ساتھ ساتھ کم از کم پانچ بڑے فوجی آپریشن کیے ہیں۔ آپریشن اینڈورنگ فریڈم (2001–2002)، آپریشن المیزان (2002–2006)، آپریشن زلزلہ (2008)، آپریشن شیر دل، راہ ِحق، راہ راست (2007-2009) اور آپریشن راہ نجات (2009-2010)۔ پاکستان کو ستمبر 2001 سے 2009 تک ان فوجی آپریشنز کی وجہ سے مجموعی طور پر 45 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ جس کے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے نقصان، سرمایے کی کمی ، آپریشنز والے علاقوں میں صنعتوں کی بندش کی صورت میں مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
ملک کا سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ بکھر کر رہ گیا مگر عسکری ڈھانچہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف قائم رہا بلکہ مضبوط تر ہوتا گیا۔ انسٹیٹیوٹ آف ا سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد کے مطابق اس دوران تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی فوج فاٹا اور کے پی کے میں تعینات رہی۔
اس جنگ کی وجہ سے سوات اور فاٹا کے عام لوگوں کی زندگی کس حد تک متاثر ہوئی اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ ان آٹھ سالوں میں اسکول بند رہے، ہسپتال بند رہے، بازار بند رہے ،کاروبار بند رہے، گویا کاروبار زندگی معطل رہا۔ جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس قدر وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی کہ تقسیم ہند کے وقت ہونے والی ہجرت کا زخم تازہ ہو گیا۔ سماجی سائنسدانوں کے مطابق اس قدر وسیع پیمانے پر نقل مکانی پورے ملک کی سماجی ڈیموگرافی پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ ہ یہ حقیقت ہے جس کا سامنا ملک کے ہر خطے نے کیا ۔
اس جنگ کی وجہ سے اپریل 2009 کے آخر تک، خیبر پختونخوا میں 550,000 سے زائد افراد نے آئی ڈی پیز کے طور پر اندراج کرایا تھا۔ اکتوبر 2009 میں باجوڑ ایجنسی میں کشیدہ لڑائی نے نقل مکانی کی ایک اور لہر کو جنم دیا اور مزید 50,000 افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ دسمبر 2009 کے آخر میں لوئر دیر اور نوشہرہ میں باجوڑ سے 250,000 سے زیادہ شہری اور مہمند سے 180,000 کو آئی ڈی پیز کے طور پر رجسٹر کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق بے گھر ہونے والی آبادی میں 69,000 حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔ آپ ان حاملہ خواتین اور ان کے خاندان کی اذیت کا تصور بھی نہیں کر سکتے جب یہ لوگ مہاجرین کیمپوں میں زندگی گزار رہے تھے۔
ملک بھر میں تشدد اور ہنگامہ آرائی سے پاکستان کو ایک المناک جانی نقصان ہوا ہے۔ سال 2001-2011 میں ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ فوجی کارروائیوں نے پاکستان کی سلامتی پر بڑا اثر ڈالا ہے، پاکستان کے اندر دہشت گردی میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کی سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق، سال 2006 میں 657 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 41 فرقہ وارانہ نوعیت کے تھے، جن میں 907 افراد ہلاک اور 1543 دیگر زخمی ہوئے۔ 2007 کے دوران حملے (زیادہ تر سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا) جس میں کم از کم 770 افراد ہلاک اور 1574 افراد زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں 2007 میں لال مسجد آپریشن کے بعد خودکش حملوں میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2009 تک پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں 35,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 5000 قانون نافذ کرنے والے اہلکار شامل ہیں۔
2001 سے 15 مئی 2011 کے درمیان 423 واقعات رونما ہوئے جن میں مسلح افواج کو براہ راست نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم 1,322 سیکورٹی فورسز کے اہلکار شہید اور 2,582 زخمی ہوئے۔ اس ڈیٹا میں وہ ہلاکتیں شامل ہیں جو فوجی کیمپ، پولیس چیک پوسٹ یا سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر براہ راست حملوں کے نتیجے میں ہوئیں۔ سیکورٹی فورسز کے درمیان مجموعی طور پر ہلاکتیں، بشمول دیگر دہشت گردی کے کئی واقعات جن میں سیکورٹی فورسز بنیادی ہدف نہیں تھے، اسی مدت کے دوران 3,631 سویلین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
2001 اس سے پہلے پاکستان کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا محدود تجربہ تھا۔ آپریشن المیزان کے دوران خاص طور پر جنوبی وزیرستان میں اس کی کارکردگی نے محاصرے، تلاشی اور علاقے پر قبضہ کرنے میں سنگین کوتاہیوں کو ظاہر کیا۔ آپریشن شیر دل، راہ راست اور راہ نجات سے پاکستان کی کارکردگی میں کچھ بہتری آئی ہے۔
فرنٹیئر کور اور فوج علاقے کو صاف کرنے، مقامی قبائل کے ساتھ آپریشنز کو مربوط کرنے، اور جنگ زدہ علاقے میں ترقیاتی کام شامل کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں تھے۔ تاہم پاکستان کی وفاقی اور صوبائی بیوروکریسی اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کو مناسب امداد فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
مزید برآں، فاٹا اور پاٹا کے جنگی علاقوں میں متاثرہ لوگوں کو فوری امداد فراہم کرنے میں حکومت کی جانب سے ناکامی نے عوام اور حکومت کے درمیان دشمنی کو جنم دیا ہے۔ سیاسی محرومی اور فیصلہ سازی میں شرکت نہ ہونے کے احساس نے حکومت اور عوام کے درمیان خلیج کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ فاٹا میں یہ موجودہ صورتحال ان عسکریت پسندوں کے حق میں تھی جو قبائلی سیاسی اور انتظامی نظام کی موروثی ساختی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قبائلی معاشرے میں تقسیم پیدا کرتے ہیں۔ جہاں کچھ لوگ طالبان کو اپنا نجات دہندہ تصور کرنے لگے۔
دہشت گردی کے خلاف اس نو سالہ جنگ کا کیا نتیجہ نکلا؟ سوائے نفرت دہشت اور قتل و غارت میں اضافے کے۔ ہماری عسکری و سیاسی لیڈر شپ کو جنگ میں مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکامی پر سوچنا چاہیے تھا، پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی ملک بھر کی یونیورسٹیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کی وجوہات پر تحقیق کرنے کا کہا جاتا۔ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے جنگ میں ناکامی کے بعد متبادل ذرائع تلاش کرنے چاہیے تھے۔
مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ یہ تمام آپریشنز اپنے مقررہ نتائج حاصل کرنے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ ملک بھر میں دہشت اور بم دھماکوں میں اضافے کا سبب بھی بنے۔ گو کہ عسکری و سیاسی لیڈر شپ کی طرف سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، اب دہشت گردی کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیں گے، دہشت گردوں کی تمام پناہ گاہیں ختم کر دی گئی ہیں، جیسے بیان تو دیئے جاتے رہے مگر دہشتگردی کے خلاف اس نو سالہ جنگ کے اختتام پر وہ سوال اپنی جگہ جواب طلب رہا کہ ملک میں امن و امان کیوں قائم نہ ہوا، دہشگرد ہر آپریشن کے بعد پوری طاقت سے واپس کیسے آتے رہے یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب حکومت وقت کو دہشت گردی کے خلاف نئی جنگ پر کمر بستہ ہونے سے پہلے عوام کے سامنے ہیش کرنے چاہیے تھے۔