پشتو کے بے بدل ترقی پسند شاعر رحمت شاہ سائل کی ایک مشہور لیکن پرانی نظم ہے ’اخترہ پہ ما مہ رازہ’ (اے عید میرے پاس مت آنا)۔
یہ نظم مجھے آج کے آتشیں فضاؤں اور بارود بدست جنونیت کے لمحوں میں شدت کے ساتھ یاد آنے لگی ہے۔
جس زمانے میں سائل نے یہ نظم لکھی تھی وہ زمانہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست اور سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کے نظریاتی ٹکراؤ کا زمانہ تھا۔
اور ظاہر ہے کہ رحمت شاہ سائل کا رونا اس سیاسی نظام کے خلاف ہی تھا جس کے مقابل وہ شاعری کے میدان میں ایک توانا نظریاتی آواز بن کر ابھرے تھے۔
لیکن تب کیا معلوم تھا کہ آنے والے شب و روز میں ایک شاعر کا رونا نہ صرف نظام سے ہوتے ہوتے اپنے پیاروں کی لاشوں تک آجائے گا بلکہ یہ ’بین’ قومی اور اجتماعی سطح تک بھی پھیل جائے گا۔
آگے چل کر اس پر بات کریں گے لیکن پہلے تھوڑا سا ماضی سے بھی ہو آئیں۔
تب نہ برینڈز سے شناسائی تھی اور نہ بیوٹی پارلر گلی گلی پھیلے تھے۔ نہ تیز رفتار زندگی تھی اور نہ ہی بظاہر قریب لاتا لیکن تنہائی بانٹتا انٹرنیٹ تھا، نہ وسائل کی بہتات تھی اور نہ ہی فیشن کے خرچے، لیکن یہ مذہب اور عقیدے کی خوشبو اور حُسن میں گوندھی ہوئی عید ہی ہوتی تھی جو معاشرے میں ایک ہموار سطح پر محبت، امن اور سلامتی کا پیغام بانٹتی ہوئی اگلے دن رخصت ہوجاتی تھی۔
میں غیر ضروری طور پر حقائق سے دُور ماضی پرستی کا کبھی قائل نہیں رہا لیکن ماننا پڑے گا کہ ماضی میں وسائل کی کمیابی، ترقی سے محرومی اور عمومی غربت کے باوجود بھی عید پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ اپنا آفاقی پیغام یعنی (امن، محبت، ہمدردی اور مہمان نوازی) دینے میں کامیاب ہوتی تھی۔
بچوں کو بمشکل کپڑوں کا ایک سادہ سا جوڑا نصیب ہوتا تھا اور خواتین کو چوڑیاں اور مہندی کے لیے کئی دنوں تک پاپڑ بیلنے پڑتے تھے جبکہ بزرگوں کو عیدی دینے کے لیے دل پر پتھر رکھنا پڑتا تھا۔
گڑ کا حلوہ گھر میں پکائے ہوئے سادہ سے چاول اور زیادہ سے زیادہ سویاں مٹھاس میں اتنی طاقتور ہوتیں کہ سالہا سال سے عزیز داریوں میں پھیلی تلخیوں پر فوراً قابو پا لیتیں۔
میں نے کہا نا کہ میں ماضی پرستی کا کبھی ایک حد سے زیادہ قائل نہیں رہا بلکہ ایک سفاک حقیقت پسندی کے ساتھ عموماً حال کو ہی ماضی پر فوقیت دیتا ہوں۔
لیکن ماننا پڑے گا کہ ماضی میں عید پورے معاشرے پر اجتماعی حوالے سے رواداری، انسان دوستی، سخاوت اور محبت کی گہری پرچھائیاں چھوڑ کر اگلے دن رخصت ہوتی تو اس کے اثرات بہت مثبت انداز میں دیر تک اجتماعی زندگی کو ایک نعمت کی شکل میں میسر ہوتے۔
لیکن، اب حالات کا جبر اور ایک مقدس اور مہربان تہوار کے لطف اور حُسن سے محروم ہوتے اور مسلسل خونی المیوں سے دوچار ہوتے ہم بے بس لوگ۔
حیرت ہے کہ وہی دھرتی، وہی معاشرہ ہے، وہی خدا اور رسول اللہ ﷺ کی لافانی اور دیوانہ وار محبت ہے اور وہی روایات اور اقدار و تہذیب ہیں، وہی مذہب اسلام اور اس کی عظیم تعلیمات ہیں لیکن ان سب کے باوجود فضا اب ویسی نہیں رہی اور نہ ہی عید۔
پہلے عید امن، سلامتی اور بھائی چارے کا پیغام لے کر آتی تھی اور اور اب نفرت، خون اور لاشیں لے کر آنے لگی ہے۔
آفتاب شیرپاؤ اور اس کے بیٹوں پر عید کی نماز پڑھتے اور خدا کے حضور جھکتے ہوئے حملے سے شروع ہونے والی خونریز عفریت اسفندیار ولی کے ڈیرے میں گھستی اور لاشوں کے ڈھیر لگاتی وزیرستان، بنوں، لکی مروت، پشاور حتیٰ کہ کوئٹہ اور کراچی تک خونی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
فوج اور پولیس کے ساتھ ساتھ کتنے سویلینز کی لاشیں ان کی ماؤں کی بین اور یتیموں کی آہ و بکا کے سامنے پڑی رہیں۔
لمحے بھر کو تصور کیجیے کہ پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے ان 100 شہدا کے بچے کیا سوچتے ہوں گے کہ ہمارے بابا نے خدا کے کس حکم سے روگردانی کی تھی کہ انہیں مسجد میں بھی نہیں چھوڑا گیا۔
وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں شہید ہونے والے فوجی سپاہیوں کی مائیں پوچھتی پھریں گی کہ میرا بیٹا تو وطن کی حفاظت پر مامور تھا اسے اپنے کلمہ گو بھائی نے کیوں مارا؟
اہم بات یہ ہے کہ عید کا دن تو اللہ تعالی نے امن، محبت، ہمدردی اور مہمان نوازی کے طور پر ایک نعمت کی صورت عطا کیا تھا خون ریزی، خوف و دہشت اور نفرت کے طور پر ہرگز نہیں۔
لیکن ہماری کوتاہ نظری، ریاستی ناکامیاں اور ہٹ دھرمی اس رحمتوں بھرے دن کو برکتوں اور نعمتوں کے بجائے کس خون ناحق درندگی کی طرف لے کر آچکی ہیں۔
اندازہ لگائیں کہ مارچ کے مہینے میں سیکیورٹی فورسز پر 40 سے زائد حملوں اور 175 کے قریب شہادتوں کے بعد ہم کس منہ سے یہ دعوٰی کریں گے کہ ہم اس رحمت اللعالمین کے امتی ہیں جو بے رحم اور سفاک دشمنوں کے ہاتھوں اپنا محبوب مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے، لیکن سالہا سال بعد جب ایک طاقتور لشکر کے ساتھ اسی مکے کو فتح کرتے ہوئے داخل ہونے لگے تو لشکر میں سے کسی صحابی کی آواز گونجی کہ ’الیوم یوم الملحمہ’ (آج انتقام کا دن ہے)، یہ آواز سن کر محبت، امن اور سلامتی کے پیامبر نے اونٹنی روک دی اور بلند ہوتی آواز کے ساتھ کہا نہیں، ہرگز نہیں بلکہ ’الیوم یوم المرحمہ’ (آج تو رحم کا دن ہے)
کمال تو یہ ہے کہ اسے عملی شکل میں بھی ڈھال کر دکھایا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس بابرکت دن اور اس عظیم ہستی (حضرت محمد مصطفی ﷺ) کے حکم کا اتنا بھی لحاظ نہیں کہ آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کو گلے لگا کر ان کی تابندہ روایت کی طرف لوٹ آئیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔