پانی پت کی سیاسی جنگ اور عید کی خوشیاں

پیر 24 اپریل 2023
author image

سلمان عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کا سیاسی منظر 2 بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان ایک بڑی پانی پت کی سیاسی جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ درحقیقت پنجاب میں جاری سیاسی برتری کی جنگ ہے اور بدقسمتی سے اس جنگ میں سیاسی اختلافات کے مقابلے میں سیاسی دشمنی کا رنگ نمایاں ہے۔

دونوں سیاسی قوتیں اس بات کی دعوے دار ہیں کہ پنجاب کا سیاسی ریموٹ کنٹرول ان کے پاس ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کئی دہائیوں تک پنجاب مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا مرکز رہا ہے، تاہم اب یہاں عمران خان کی سیاست بھی فروغ پذیر نظر آتی ہے۔

اس برس عید ایک ایسے موقع پر آئی ہے جب ملک کے سیاسی منظرنامے میں شدت نمایاں ہے۔ عمران خان کو حکومت کی جانب سے کافی مزاحمت کا سامنا ہے۔ وہ دہشتگردی کے درجنوں مقدمات بھگت رہے ہیں۔ عمران خان عملی طور پر زمان پارک میں کچھ اس طرح محصور ہیں کہ انہیں گرفتار کرنا خاصا مشکل ہوگیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت پوری کوشش کے باوجود عمران خان کو گرفتار نہیں کرسکی۔

ایسے میں حکومت کا مؤقف ہے کہ عمران خان گرفتاری سے بچنے کے لیے ’عدالتوں کو سیاسی ڈھال‘ کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور یہ خطرہ بھی ان لوگوں سے ہے جنہوں نے ان کی جان کو تحفظ دینا ہے۔ یعنی وہ براہِ راست اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت پر اپنے قتل کا الزام لگاتے ہیں۔ اس لحاظ سے عمران خان کی عید کی خوشیاں مشکل میں ہیں اور وہ خود کو محفوظ بنانے کی حکمتِ عملی کے تحت عملاً یرغمالی کی سی صورتحال سے دوچار ہیں۔

بات فقط عمران خان تک محدود نہیں ان کی جماعت کی بیشتر قیادت پر بھی دہشتگردی کے مقدمات ہیں اور کئی سو کارکنان اب بھی جیلوں میں ہیں۔

2018 کے انتخابات سے قبل جب عید آئی تو وہ عمران خان کے لیے اچھے دن تھے کیونکہ بہت سے سیاسی پنڈت یہ پیشگوئی کررہے تھے کہ عمران خان 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والے ہیں۔ اسی طرح سیاسی پنڈتوں کے بقول 2018 کے انتخابات سے قبل اسٹیبلشمنٹ بھی ان کی حامی تھی اور ان کے اقتدار کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کر رہی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ (ن) پر سیاست کافی بھاری تھی، خود اس جماعت کو بھی محسوس ہورہا تھا کہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اسی طرح عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد آنے والی عیدیں بھی مسلم لیگ (ن) کے لیے بھاری ثابت ہوئیں اور ان کے کئی اہم رہنما یا تو حالات سے دل برداشتہ ہوکر ملک سے باہر چلے  گئے تھے یا انہیں مختلف مقدمات کا سامنا تھا۔ ان میں سے بیشتر مقدمات وہ تھے جو ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے مگر ان مقدمات کا سامنا ان کو عمران خان حکومت میں کرنا پڑا۔ شریف خاندان کو تو مشکل حالات میں کئی عیدیں پاکستان سے باہر گزارنی پڑیں کیونکہ پاکستان میں سیاسی حالات ان کے حق میں نہیں تھے۔

پاکستان میں عیدیں بھی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے لیے سیاسی عیدوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ کوئی عید ان کے سیاسی حق میں ہوتی ہے اور کسی عید پر ان کو سیاسی محاذ پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے۔

اب جبکہ 2023 میں ہم عید منارہے ہیں تو صورتحال ماضی کے مقابلے میں کافی دلچسپ ہے۔ پی ٹی آئی کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور یہ مزاحمت ان کی سیاست میں پہلا سیاسی تجربہ ہے۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کسی بھی طور پر مزاحمت کی جماعت نہیں بلکہ اسے برگر جماعت سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اس بار عید پر جہاں انہیں مزاحمت کا سامنا ہے وہیں ان کو اس بات کا بھی زعم ہے کہ ان کی سیاسی مقبولیت عروج پر ہے۔ عمران خان کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد انتخابات سے فرار کی راہ ڈھونڈ رہا ہے۔

بہت سے سیاسی پنڈتوں کے بقول اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو نتائج پی ٹی آئی کے حق میں ہوں گے، اس لیے عمران خان کو اس مشکل وقت میں بھی اس بات کی خوشی ہے کہ وہ سیاسی طور پر اپنے سیاسی مخالفین پر بھاری ہیں جبکہ اس کے برعکس حکمران اتحاد کی سیاسی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا ہوا اور ان کے طرزِ حکمرانی پر بھی تنقید ہورہی ہے۔ لوگوں میں حکمران طبقہ کے خلاف کافی غصہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ حکمران طبقہ عوامی توقعات پر پورا اترنے میں مکمل طور پر ناکام ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے انتخابات نہ کرانے کی حکمتِ عملی کو بھی اسی قومی سیاسی بحران کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔

اسی طرح حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو جہاں ایک طرف عید کی ان خوشیوں کے تناظر میں عمران خان کی جارحانہ سیاست کا سامنا ہے دوسری طرف ان کو سخت عدالتی مزاحمت درپیش ہے۔ حکمران اتحاد کو لگتا ہے کہ عدالتی مزاحمت نے ان کی عید کی خوشیوں کو پھیکا اور ان کی سیاست کو کمزور کردیا ہے۔

2023 کی عید کی خوشیاں واقعی مسلم لیگ (ن) پر بھاری ثابت ہو رہی ہے اور ایسے میں ان کے سیاسی مخالف عمران خان کو ان کے مقابلے میں زیادہ سیاسی فائدے مل رہے ہیں۔ یہ دکھ اس لحاظ سے بھی بڑا ہے کہ یہ سارا قومی بحران ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ملک عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ووٹ کی پرچی اقتدار کے نئے کردار کا تعین کرتی ہے۔ ایسے میں حکمران اتحاد سے جڑی کارکردگی میں لوگ کیونکر ووٹ کی سیاست میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

یہی سبب ہے کہ عید پر ان کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کی حکمتِ عملیاں درکار ہیں کیونکہ اگر حکومت اور بالخصوص مسلم لیگ (ن) نے آنے والے کچھ عرصے میں اپنے لیے سیاسی حالات کو سازگار نہ کیا تو اس کے نتیجے میں عمران خان ان کو پنجاب میں  شکست دے سکتے ہیں۔ پنجاب کا یہ معرکہ پانی پت کی سیاسی جنگ ہے جو اس میں فاتح ہوگا وہی مرکز میں حکومت بنائے گا۔

بنیادی طور پر سیاسی عیدیں کسی کی حمایت اور کسی مخالفت میں سامنے آتی ہیں مگر اصل مسئلہ اس سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا ہے جو اس وقت ریاست کو درپیش ہے۔ ہم بطور ریاست اس وقت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی سیاست میں موجود سیاسی کشیدگی کا خاتمہ ہو اور سیاسی مفاہمت کے امکانات کو ایک نئی سیاسی جہت اور طاقت مل سکے کیونکہ ہم تسلسل کے ساتھ اس محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی سیاست کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

لیکن جو سیاسی تلخ حقائق ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ مفاہمت کا عمل اتنا آسان نہیں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں۔ اس لیے قومی مفاہمت اور سیاسی کشیدگی کا خاتمہ ہماری سیاسی ترجیحات کا بنیادی ایجنڈا ہونا چاہیے اور اسی کی بنیاد پر ہم مستقبل کی سیاست اور معیشت میں استحکام پیدا کرسکیں گے۔ تاہم یہ سب سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا بلکہ سب فریقین کو مل کر ہی اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا کیونکہ مفاہمت کی سیاست محض ان سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے تک محدود نہیں بلکہ اس کا براہِ راست تعلق قومی ترقی اور خوشحالی سے بھی جڑا ہوا ہے۔

معاشی استحکام کی کنجی کا بھی براہِ راست تعلق سیاسی استحکام سے منسلک ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنے سیاسی اور جمہوری معاملات کو درست سمت دینا ہوگی۔ اس میں خاص طور پر سیاسی جماعتوں میں موجود سنجیدہ فکر افراد کا کردار اہمیت رکھتا ہے اور وہ اپنی اپنی جماعتوں میں موجود سخت گیر یا محاذ آرائی یا ٹکراؤ پیدا کرنے والے عناصر کے مقابلے میں نہ صرف خود کو مضبوط کریں بلکہ اس بات پر زور دیں کہ ہمیں مفاہمت کی طرف ہی پیشرفت کرنا چاہیے۔

اس عید کی خوشیوں میں اگر مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کی کوئی معمولی کوشش بھی ہوتی ہے تو یہ عمل پاکستانی عوام کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp