معروف معنوں میں کسی ملک کو چلانے کے لئے لوگوں کے منتخب نمائندے اکثریت رائے سے جو اصول و ضوابط طے کرتے ہیں ان کو آئین کہا جاتا ہے۔اصول و ضوابط کے بغیر ملک کیا کسی گاؤں ،محلے یا گھر کا نظام بھی نہیں چلایا جا سکتا۔نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کسی ضابطے کے تحت چلتی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ آئین اور قانون کی پابندی کرنے والے معاشرےہی اپنے شہریوں کے لیے امن ،آشتی اور پائیدار ترقی کے ضامن رہے ہیں۔ موجودہ عہد میں وہ ملک بہت اعتماد کے ساتھ آزاد قوموں کی صف میں کھڑے رہے ہیں جن کا اپنا بنایا ہواآئین رائج تھا اور وہ اس پر عمل پیرا بھی تھے۔
آئین کسی ملک کو داخلی طور پر منظم ومظبوط کرتا ہے اور دوسری اقوام کی نظر میں معتبر بناتا ہے۔ آئین و قانون پر کاربند ملکوں پر جارحیت کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہےکہ آئین جب شہریوں کو تحفظ اور حقوق فراہم کرتا ہے تو شہریوں کا ریاست پر اعتماد بڑھتا ہے اور و ہ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ ملک پر جارحیت کی شکل میں لوگ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے ملک کا ہر طرح سے دفاع کرتے ہیں۔
قیام پاکستان کے کئی برس بعد 23مارچ 1956 کو پہلا آئین نافذ ہوا تو پاکستان ایک نو آبادیاتی درجے کی ریاست سے ایک اسلامی ری پبلک آف پاکستان میں تبدیل ہو گیا۔ گویا ایک مکمل آزاد ریاست بن گیا ۔یہی دن ہمارا یومِ جمہوریہ طے پایا۔
1956،57 اور1958 کو یہ یومِ جمہوریہ بڑے جشن کے ساتھ منایا جاتا رہا مگر اکتوبر 1958ءمیں ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا تو جمہوریت کے ساتھ ہی یومِ جمہوریہ کا بستر بھی لپیٹا گیا۔یاد رہے کہ 23 مارچ 1956 سے پہلے تک رائل پاکستان،آرمی،نیوی یا ائر فورس کہا جاتا تھا۔رائل کا سابقہ تب ہمارے ناموں سے اترا جب ہم نے اپنا آئین بنایا۔
آئین ہی وہ دستاویز تھی جس نے ہمیں حقیقی آزاد ریاست کا درجہ دیا بصورتِ دیگر ہم علامتی طور پر ہی سہی ،تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھےبہرحال ہمارے ملک میں آئین کتنی بار ٹو ٹا اور کتنی بار بنا ہمارا یہ موضوع نہیں۔اصل موضوع یہ ہے کہ عام شہری کا آئین سے کیا رشتہ ہے؟
آپ کا کبھی کسی عمر رسیدہ بزرگ سے مکالمہ ہو جس نے انگریز کا دور دیکھا ہو تو وہ آپ کو عموماًاس دور کے گُن گاتا نظر آئے گا۔ عام طالب علم کے طور پر ہم نے جو نصاب میں پڑھا ہوتا ہے ،اُ س کے اُلٹ انگریز کی تعریف سُن کر بہت حیرانی ہوتی ہے۔دیگر خصوصیات کے ساتھ انگریز کے دور کی سب سے بڑی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ “قانون کی حُکمرانی تھی اور سب کے لئے قانون ایک تھا”۔
اسی طرح عام لوگ کی طرح سابق وزیرِاعظم عمران خان بھی صدر ایوب خان کے مداح ہیں۔ابھی تک بھی کئی ٹرکوں کی پُشت پر آپ کو صدر ایوب کی باوردی تصویر نظر آجائے گی۔ اسی طرح کسی مجلس یا شادی بیاہ میں آپ کو اکثر لوگ یہ کہتے ہوئے مل جائیں گے کہ سب مسائل کا حل مارشل لاء یا ڈنڈا ہے ۔کوئی کہے گا کہ ہماری قوم سیدھی نہیں ہوسکتی ، یہاں کوئی قانون نہیں۔ سینکڑوں افراد کو پھانسیوں پر لٹکانے کے خواہش مند تو آپ کو بڑے بڑے لوگ ملیں گے۔ چھوٹے سے جُرم پر بھی لوگ سرِعام لٹکانے سے کم بات نہیں کرتے۔
اگر آپ ان باتوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو اس سوچ اور طرزِفکر کے پیچھے آئین پرعدم اعتماد نظر آئے گا۔ یہ عدم اعتماد تب پیدا ہوتا ہے جب عام شہری محسوس کرتا ہے کہ آئین اور قانون اس کو تحفظ دینے اور اس کے حقوق کی پاسداری کرنے میں ناکام ہے ۔
اس بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئین اور قانون پر عمل داری سے شہریوں کو تحفظ محسوس ہوتا ہے،جس سے شہری اور ریاست کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔اس بات کو جتنی جلد ی اشرافیہ ، حُکمران طبقہ ، اربابِ حل وعقد سمجھ لیں گے اور اس پرعمل پیرا ہوں گے اتنی ہی جلدی ہمارے معاملات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
آئین پرعمل درآمد ملک و قوم کو مضبوط کرتا ہے اور کسی بیرونی طاقت کے لیے ریاست کو اپنے مفادات کے واسطے استعمال کرنا آسان نہیں رہتا۔جب کہ کسی آمر کو اپنے تابع کرنا مقابلتاً نہایت آسان ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں قابلِ فخر کارہائے نمایاں میں سے 1973ء کے آئین کا قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور ہونا تھا۔ رواں برس اس آئین کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے ملک کو دیرپا ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ آئین پر کاربند ہونے سے ہی عام آدمی اور ریاست کا رشتہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ ورنہ ہمیں ایک دوسرے کی حُب الوطنی پر شک ہی رہے گا۔