جلال الدین اکبر کی رواداری اور صلح کل کی پالیسی نے مغل دربار میں ایرانی و ہندوستانی تہواروں کو فروغ دیا اور خالص اسلامی تہواروں کی اہمیت گھٹ گئی۔مغلوں سے قبل خالص ایرانی اثرات کا نفوذ ہندوستان میں اس حد تک نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے لیکن سوریوں کے خلاف ہمایوں نے ایران سے مدد طلب کی اور بدلے میں اسے ہندوستان میں ایرانی اثرات کو فروغ دینے کا پابند کیا گیا۔
اس کے دربار میں بھی ایرانی امراء اور ثقافت کی ترقی ہوئی اور ہندی و ترکی اثرات دب گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغلوں کو مذہب سے زیادہ اپنی سلطنت کےاستحکام اور سیاست سے لگاؤ تھا اور مذہب کو جزوی حیثیت میں دیکھتے تھے، اسی لئے ہمایوں کے بعد اکبر نے ایک سیکولر پالیسی بنائی اور ہندی و ایرانی اثرات کو بڑھایا۔ گو اس وقت کے علماء نے اس پالیسی کے خلاف کافی مزاحمت کی لیکن عملی طور پرمغل سلطنت میں ایرانی و ہندوستانی تہواروں کی اجارہ داری رہی۔
اس ضمن میں جشن تولدان(جشن وزن) 1565ء اور جشن نوروز 1582ء میں سرکاری سطح پر شروع کر دیا گیا۔ہندو مذہبی تہوار مثلا ہولی، دسہرہ اور دیوالی کو بھی درباری سطح پر شروع کر کے فروغ دیا گیا۔گو کہ عید الفطر اور عید الضحیٰ بھی شان و شوکت سے منائی جاتی تھیں مگر اکبر کے دور سے لے کر شاہجہاں کے دور تک سب سے زیادہ شان و شوکت والا تہوار نوروزہی کا ہوتا تھا۔
نوروز قدیم ایرانی تہوار تھا جو موسم بہار کے آغاز کی علامت کے طور پہ منایا جاتا تھا۔کہتے ہیں کہ یہ تہوار قدیم ایران کے شہنشاہ جمشید نے شروع کیا تھا۔ یہ تہوار ایرانی تقویم کے حساب سے پہلی فروردیں (انگریزی مہینہ :مارچ) جب کہ موسم بہار شروع ہوتا تھا ، سے منانا شروع کیا جاتا اور سات روز تک منایا جاتا۔علی عباس جلالپوری لکھتے ہیں “مجوسی نوروز کو جشن کی طرح مناتے تھے، بارہ روز کے لئے کاروبار معطل ہو جاتا، ہندوستان کے مغل سلاطین بھی بڑے جوش و خروش سے نوروز کا جشن مناتے تھے، نئے سکے ڈھلوائے جاتے، امراء بادشاہ کو نذریں دیتے۔
بادشاہ کا تلادان ہوتا تھا۔ بادشاہ سونے، چاندی، ابریشم ، خوشبویات، کپڑے، میوے، شیرینی، تل وغیرہ میں تلتا تھا اور یہ سب چیزیں مساکین کو دی جاتی تھیں”۔نوروز کا آغاز شاہی نوبت خانے میں نقارے بجا کر کیا جاتا تھا۔مون سیراٹ نے جشن نوروز کے بارے میں لکھا کہ” ہر روز کھیل تماشے ہوا کرتے تھے، بادشاہ ایک سونے کے تخت پر جلوہ افروز ہوتا تھا جس پر سیڑھیاں چڑھ کر جایا جاتا تھا”۔نوروز کی تقریبات میں ایک دن عوام کے لئے بھی مخصوص کیا جاتا تھا جس میں انہیں دربار میں آنے کی اجازت ہوتی تھی۔
انہی تقریبات کی ایک دلچسپی مینا بازار کا انعقاد بھی تھا،جس میں مختلف امراء کو اسٹال دئے جاتے جہاں وہ شامیانے کھٹرے کرکے ان میں دلچسپ و خوبصورت چیزیں نمائش کے لئے رکھتے تھے جنہیں بادشاہ کے ملاحظے کے لئے پیش کیا جاتا۔
بادشاہ ان نمائشوں کا معائنہ کرتا اور سب سے خوبصورت سجے ہوئے اسٹال کی تعریف کرتا۔شاہی خواتین و بیگمات امراء کا الگ مینا بازار ہوتا جہاں کوئی مرد نہیں جا سکتا تھا بجز بادشاہ سلامت کے۔
ڈاکڑ مبارک علی ایک یورپی سیاح کے حوالے سے”مغل دربار”میں اس بازارکی بابت لکھتے ہیں “بادشاہ اور اس کی بیگمات اگر دوکاندار عورت سے خوش ہوجاتے تو چیز کی قیمت دوگنی ادا کرتے” ۔ان تقریبات کے علاوہ دیگر کئی غیر اسلامی تہواروں کو فوقیت حاصل تھی مثلا جشن گلابی، جشن صحت، جشن تاجپوشی، جشن ماہتابی وغیرہ۔
شاہجہاں کے عہد تک یہ تہوار اسی طرح منائے جاتے رہے اور خوب فضول خرچی کی جاتی رہی۔ شاہجہاں کے عہد حیات ہی میں اس کے بیٹوں کے مابین سلطنت کی جنگ چھڑ گئی تھی جو آخر کار اورنگزیب عالمگیر نے جیتی۔ عالمگیر نے تخت سنبھالتے ہی ابوالمظفر محی الدین کا لقب اختیار کیا اوران تمام فضول رسموں کو جو ہندوؤں ، ایرانیوں یا مسلمانوں سے منسوب تھیں، ختم کر دیا۔ صرف شرعی تہوار باقی رکھے گئے۔
ان تہواروں میں بھی عید الفطر کی اہمیت اس لئے زیادہ ہو گئی کہ اورنگزیب کی تخت نشینی اس کے قریب قریب ہوئی تھی یعنی ماہ رمضان المبارک میں۔ اورنگزیب نے اپنی تخت نشینی کے جشن کو عید تک بڑھا کے دونوں کو ملا دیا اور چونکہ مغل بادشاہ اپنی تخت نشینی کی تاریخ کو خصوصی جشن کے ساتھ مناتے تھے اسلئے عید الفطر کا رنگ بھی دوبالا ہو گیا اور اس کا حقیقی کھویا ہوا مقام واپس مل گیا۔
صاحب مآثر عالمگیری، محمد ساقی مستعد خاں لکھتا ہے”چونکہ عہد معدلت سے پیشتر جمشید و کسرٰی کی تقلید میں یکم فروردی کو یوم عید سمجھا جاتا تھا اور اس روز بزم نشاط آراستہ کر کے عیش پرستی کی جاتی تھی، بادشاہ دین پناہ (اورنگزیب) نے حکم صادر فرمایا کہ بجائے جشن نوروز کے ایک جشن نشاط رمضان کے مقدس مہینے میں منعقد کیا جائے۔ اور عید الفطر کے مبارک روز سے متصل کر دیا جائے۔
تمام بہی خواہان ملک اس جشن میں عیش و عشرت کی داد دیں ۔ بادشاہ نے اس بزم کو جشن نشاط افروز کے نام سے موسوم کیا”۔ساتھ ہی اورنگزیب نے ملا عوض وجیہ کو عہدہ احتساب پہ فائز کیا کہ اب کے بعد کوئی بھی غیر شرعی تہوار اور رسومات نہ ہو سکیں اور تمام ایسے مکروہات کی روک تھام کی جا سکے۔
عالمگیر نے نوروز کا بالکل خاتمہ کر دیا اور عید الفطر ، عید الاضحیٰ اور رمضان میں تقریبات افطار کوترجیح دی گئی۔ شہزادوں کے لئے بھی یہی حکم صادر کیا گیا کہ نوروز کی تقریبات ختم کر کے خالص اسلامی تہوار منائے جائیں۔اس بارے میں اس نے متشدد رویہ اختیار کیاجس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو اس نے اپنے بڑے شہزادے کو اس وقت لکھا جب اس نے نوروز کا تہوار منایا۔اس خط میں عالمگیر نے شہزادے کو خوب لعنت ملامت کی اور لکھا کہ”ہمیں معتبر اور بارسوخ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اس سال نوروز کا جشن منایا ہے جو کہ وحشی ایرانیوں کا تہوار ہے ۔تم کو خدا کے نام پر اپنے اصولوں، روایات، اور دستور کا پابند ہونا چاہیےاور کوئی نئی روایت نہیں اختیار کرنی چاہیے”۔
ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ عالمگیر سے قبل گو عید کے تہوار کو منایا جاتا تھا مگر اس میں اس قدر رنگ بازی ہوتی کہ وہ کسی صورت اپنی اصل شکل میں نہ رہتا تھا ۔ اس موقع پر بادشاہ عید کی نماز کے لئے نکلتا تو اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لئے تمام شاہی علامات، نشانیاں اور امتیازات ساتھ ہوتے مثلا علم و جھنڈے، اسلحہ، سازوسامان سے مزین ہاتھی، گھوڑے ، اونٹ ، موسیقی کا سامان، امراء و سپاہیوں کی فوج وغیرہ۔ محمد ساقی مستعد خاں ، مآثر عالمگیری میں رقم طراز ہے “یہ مسرت انگیز دن آتا تو بڑے اہتمام سے تیاری کی جاتی۔ نغموں کی آوازوں سے زمین و آسمان گونج اٹھتے.
عالمگیر ہاتھی پر عیدگاہ جاتا۔ عیدگاہ سے واپسی کے بعد دربار میں آتا تو عطر اور پان تقسیم کیے جاتے، شہزادے اور امراء نذرانے پیش کرتے- خود عالمگیر بھی ان کو خلعت اور مناصب دیتا۔ خلعت کے ساتھ قیمتی موتی اور روپے ہوتے اور یہ جشن کئی روز تک چلتا رہتا”۔اس غیر اسلامی شان وشوکت کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمگیر نے دسویں سال جلوس کے بعد جشن عید کو سادگی سے منانے کا حکم صادر کیا مگر کچھ عرصہ بعد پھر اسی شان و شوکت سے عید کے تہوار منائے جاتے رہے، مگر ایک تبدیلی یہ آ گئی کہ جشن نوروز کی شان و شوکت بالکل ختم ہو گئی اور پھر کبھی اس کو وہ عظمت نصیب نہ ہوئی جو کہ اکبر بادشاہ کےدور میں تھی۔
عالمگیر کے بعد مغلیہ سلطنت زوال کا شکار ہوگئی لیکن عید کے تہوار کو پھر بھی حتیٰ الامکان شان وشوکت سے منانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بہادر شاہ ظفر ، جو کہ انگریزوں کے وظیفہ خوار ہو گئے تھے اور اس قدر سکت نہ رکھتے تھے کہ عید کے جشن پہ بے جا اڑا سکیں، ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ پہلی شوال کو وہ قلعے سے باہر عید گاہ میں عید کی نماز کے لئے تشریف لے جاتے اور بعد از نماز حسب معمول نیاز کی تقسیم کے بعد قلعہ معلیٰ میں واپس آتے.
آتے جاتے وقت حسبِ ضابطہ شاہی انگریزی توپ خانوں سے سلامی کی توپیں چلائی جاتیں۔ شام کے وقت محفل رقص و سرود بھی منعقد کی جاتی۔1857ء کے بعد عیدین کی سرکاری حیثیت تو جاتی رہی اور مسلمان اسے اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق مناتے رہے۔ اس کی وہ شان و شوکت جو عالمگیر کے عہد میں تھی، وہ واپس نہ آ سکی۔ حتیٰ کہ پاکستان ماہ رمضان میں معرض وجود میں آیا اور مسلمانوں نے پہلی عید الفطر شکرانے کے طور پر منائی۔
مجموعی طور پر مغل عہد کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر عالمگیر کے علاوہ کوئی ایسا مغل بادشاہ نظر نہیں آتا جس نے اسلامی مذہبی تناظر میں فیصلے کئے ہوں۔مذہب کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ ہی انہیں لہوولعب کی طرف لے گیا اور وہ ہر اس تہوار کو شان و شوکت سے منانے لگے جس سے ان کی طاقت و جبروت اور رعب و دبدبہ کا اظہار ہوتا ہو۔ مذہب کا استعمال صرف عوامی جذبات کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے کیا جاتا تھا۔
اسی لئے مغل بادشاہوں نے اپنے القاب دینی پس منظر میں رکھے مثلا ظہیرالدین، نصیرالدین، جلال الدین، نورالدین، شہاب الدین اور محی الدین وغیرہ۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے نزدیک دین کا رکھوالا ظاہر کیا اور دوسری طرف ہندی تہواروں کو فروغ دے کے ہندوؤں سے رواداری کا مظاہرہ کیا اور اپنے ایرانی امراء کے زیر اثر نوروز جیسے تہواروں کو فروغ دیا۔
اسلامی علمبرداری کے دعویٰ کی نسبت سے انہیں چاہیے تھا کہ اسلامی تہواروں کو فوقیت دیتے لیکن انہوں نے دانستہ یا نادانستہ اس سے گریز کیا۔ اگر عالمگیر انتہائی سختی سے عیدین کی برتری کا نفاذ نہ کرتا تو شائد آج بھی نوروز ہی نہایت زور و شور سے منایا جا رہا ہوتا۔مغلوں سے قبل ہندوستان کے مسلمان حکمران خاندانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ان کے نزدیک اسلامی عیدین کے تہواروں کی بڑی وقعت تھی اور وہ یہ تہوار نہایت شان و شوکت سے مناتے تھے۔
اسلامی علمبرداری کے دعویٰ کی نسبت سے انہیں چاہیے تھا کہ اسلامی تہواروں کو فوقیت دیتے لیکن انہوں نے دانستہ یا نادانستہ اس سے گریز کیا۔ اگر عالمگیر انتہائی سختی سے عیدین کی برتری کا نفاذ نہ کرتا تو شائد آج بھی نوروز ہی نہایت زور و شور سے منایا جا رہا ہوتا۔مغلوں سے قبل ہندوستان کے مسلمان حکمران خاندانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ان کے نزدیک اسلامی عیدین کے تہواروں کی بڑی وقعت تھی اور وہ یہ تہوار نہایت شان و شوکت سے مناتے تھے۔
ابن بطوطہ اسی طرح کی ایک عید کا نہایت شاندار تذکرہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ چاند رات سے ہی شاہی محل میں چہل پہل شروع ہو جاتی ہے اور بادشاہ کا شاندار جلوس عید کے روز نکلتا ہے اور عصر کے قریب بادشاہ تخت زریں پر جلوہ افروز ہو کے ان راجاؤں کی بیٹیاں وغیرہ جو اس سال کی لڑائیوں میں پکڑی جاتی ہیں، اپنے قریبی لوگوں، دامادوں اور شہزادوں وغیرہ میں تقسیم کرتا ہے۔ دوسرے روز بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ”عید کے تیسرے دن بادشاہ کے رشتہ داروں کے نکاح ہوتے ہیں اور ان کو جاگیریں انعام میں ملتی ہیں۔
چوتھے دن غلام آزاد کیے جاتے ہیں، پانچویں دن لونڈیاں آزاد کی جاتی ہیں، چھٹے دن غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح ہوتے ہیں اور ساتویں دن خیرات تقسیم کی جاتی ہے”۔ابن بطوطہ سلطان محمد بن تغلق کے دور(1325ء تا1351ء) میں ہندوستان آیا تھا۔ بہرحال، عالمگیر نے اس بات کی حتیٰ الامکان کوشش کی کہ اسلامی تہواروں کو رواج دیا جائے لیکن شائد وہ کلیتا ہندی و ایرانی تہواروں کو ختم نہ کر سکا جو رفتہ رفتہ ہندوستانی ثقافت کا حصہ بنتے چلے گئے اور کہیں کہیں انہوں نے مسلمانوں میں اس حد تک بھی نفوذ کیا کہ مذہبی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔