مجھے آج تک اِس شعر کی سمجھ نہیں آئی جو ہمارے وقتوں میں ہر عید کارڈ پر لکھنا ضروری تھا . یہ شعر ہماری معاشرتی اقدار کی شاید عکاسی کرتا تھا . وجہ جو بھی ہو ، لیکن اِس جیسا شعر نا پِھر آیا ہے اور نا کبھی آئے گا . ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کے چونکہ عید کے دن سب نے نہانا ہوتا ہے تو شاید غسل خانے سے وابستہ یہ شعر وقت کی اہم ضرورت بن جاتا ہے .
گزشتہ کئی دہائیاں جن میں مجھ ناچیز کو زندہ رہنے کا شرف حاصل ہوا ، عید منانے کے طریقے بھی کافی بدلے ہیں . لوگوں کے مزاج بھی بدلے ہیں ، روایات بدلی ہیں اور سب سے بڑھ کے جیب اور بینک اکاؤنٹ میں پیسے بھی کافی بدلے ہیں . پیسے کی بات کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسوں آ گئے ہیں۔
خیر میرے بچپن میں عید ویسے ہی منائی جاتی تھی جیسے مڈل کلاس گھروں میں منائی جاتی ہے . میں امیروں کی بات نہیں کر سکتی کیوں کہ میرے پاس اِس ٹائم بھی بینک میں تِین سو تِین روپے پڑے ہیں۔
عید کی نماز پڑھنے کے لیے ہم لڑکیاں ایسے اٹھ کے بیٹھتی تھی جیسے جماعت ہم نے کرانی ہے۔ آنکھ کھلتے ہی پہلا دھیان ہاتھوں پر لگی مہندی پر جاتا تھا کہ رنگ صحیح آیا ہے کہ نہیں آیا۔ پِھر کپڑوں کی پریشانی کے استری تو ہوگئے ہیں اب امی پہنائیں گی کس ٹائم؟ مجھے یاد ہے تقریباً صبح 9 بجے، جی یہ وہ ٹائم جس پر آج کل ہم صرف سوئے نہیں ہوتے بلکہ تقریباً اگلے جہاں پہنچے ہوتے ہیں، عید کے کپڑے پہن کر، چوڑیاں، بندے پہن کر اور ایک پرس ہاتھ میں پکڑے ہم تیار ہوتے تھے کے چلو باہر جا کر لوگوں کو لوٹیں۔ میرا مطلب ہے لوگوں سے عیدی وصول کریں۔ گھر والے صبح 7 بجے سویاں بنا کر فارغ ہو چکے ہوتے تھے۔
اور چونکہ مرد حضرات ہی زیادہ ترعید کی نماز پڑھنے جاتے تھے تو واپس آ کر ان کے لیے سونا ایسے ہی تھا جیسے نہاری کے ساتھ نان. مجھے نہیں یاد پڑتا کے عید کا کوئی ایک بھی دن ایسا ہو جب کوئی مہمان نا آیا ہو یا ہم کہیں نا گئے ہوں .
اچھا اس زمانے میں بھی عورتیں جو پُورا رمضان کا مہینہ مختلف لوازمات پکا پکا کر خود اک مصالحہ بن چکی ہوتی تھی ، وہ عید کے روز مزید جوش کے ساتھ پِھر کچن میں ہی پائی جاتی تھی کیوں کہ دیکھیں نا مرد حضرات عید کی نماز پڑھ کے آئیں ہیں، اصل میں ان کو آرام کی ضرورت ہے۔ عورت اور آرام کا کیا تعلق؟
لیکن یہ عید منانا کافی بدلا ہے پچھلے کچھ سالوں میں۔ اب لوگ تھوڑا “خاص” محسوس کرنے کے لیے کہتے ہیں کے“ عید ؟ اوہ وہ کون مناتا ہے ؟ ”۔ “عید کے کپڑے ؟ اوہ وہ کون لیتا ہے” یہ اور بات ہے کہ ابھی کل رات ہی میں بازار میں دو گھنٹے پھنسی رہی کیوں کے ایک مشہور برانڈ پر قیامت آئی ہوئی تھی اور سب ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے کہ ہر طرح کا کپڑا پکڑ لیا جائے .
میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی جانتی ہوں جو عید کی سویاں اِس لیے نہیں کھاتے کہیں “کہیں عید نا ہوجائے ، کہیں عید نا ہوجائے” . ملنا ملانا بھی کم ہوتا جا رہا ہے . رشتے دار آئیں ہو تو یا تو لوگوں کے بچے کہیں باہر نکل جاتے ہیں یا اگر بچے پھنس گئے ہیں تو والدین کہتے ہیں “بیٹا انکل کو آ کر سلام کرو”۔ وہ سلام اس قدر عجیب ہوتا ہے۔ سب رشتے دار آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور آپ زمین کو کہ وہ پھٹے اور آپ اس میں دھنس جائیں۔ اکثر لوگ خود ہی کسی کے بھی آنے سے پہلے باہر نکل جاتے ہیں۔ لیکن میرے دِل کے قریب وہ لوگ ہیں جو پوری عید سو کے مناتے ہیں . واہ . اسے کہتے ہیں کتھارسیس۔
سوئے رہو ، نا کچھ کہو ، نا کچھ سنو . آپ انسان کے شر سے محفوظ ، اور انسان آپ کے شر سے محفوظ . یہ ہے عید کا بہترین تحفہ . لیکن اِس طرح کی عید پر بھی اک چیز ویسے ہی ملے گی : خواتیں کچن میں . وہ سویاں کوئی کھائے یا نا کھائے ، كھانا کوئی کھائے یا نا کھائے ، عورتیں کچن میں ہی ملیں گی کیوں کہ “عید کون مناتا ہے لیکن جو اتنے روزے ہم نے نہاری اور پائے نہیں کھائے تھے ، وہ تو اب کھانے ہیں نا . چلو جانو ، جلدی سے پائے بنا دو” . اور جانو پِھر کچن کی ہی ہو کے رہ گئی !
اور عید پر کامیاب لوگ صرف وہی ہیں جن کی جستجو سب سے ذیادہ عیدی جمع کرنے پر ہوتی ہے . وہ ہر آدھے گھنٹے بعد میسیج کر کے پوچھتے ہیں “تیری عیدی کتنی ہوئی ؟ میری تواتنی ہوگئی اور عید پر ہم جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں “عیدی ؟ ان دس اکانومی ؟ ”
خیر آپ عید جیسے بھی منائیں ، اک بات کا خیال رکھیں کے 30 روزے آپ کے گھر کی خواتین کچن میں رہی ہیں . اب عید کے روز اپنی وہی عیدی جس کا بار بار آپ میسیج بھیج رہے ہیں اِستعمال کر کے کچھ آرڈر کر لیں اور اپنے گھر کی خواتیں کو بھی سج سنور کے کہیں جانے دیں . اس چولھے پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ان کا ہے .