عید تہوار

اتوار 23 اپریل 2023
author image

سعدیہ کیانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈبے میں ڈبہ ، ڈبے میں کیک
میری سہیلی، لاکھوں میں ایک
ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں جوس
میری سہیلی تو ہے بڑی کنجوس

ہمارا بچپن عید کارڈز پر ایسے اشعار لکھتے اور پڑھتے گزرا ہے اور ایسا ہرعید کے موقع پرکیا جاتا تھا ۔ 2000 سے پہلے عید کی خوشی منانے کا انداز مختلف تھا جو آج کل نئی نسل کے لئے غیر مانوس ہے۔تب ہم رمضان المبارک میں جہاں اپنی شاپنگ کرتے وہیں سکول کی سہیلیوں اساتذہ اور اپنے رشتہ داروں کے لئے خوبصورت ڈیزائن سے مزین کارڈذ بھی خرید رہے ہوتے اور کبھی خود بھی رنگ بھر کے کاغذوں سے کارڈ بناتے ،تب یہ کارڈ ڈاک کے ذریعے بھیجے جاتے تھے تو ہماری کوشش یہی ہوتی تھی کہ ہمارا کارڈ عین عید کے قریب پہنچے،اس سارے عمل میں خوشی اور تجسس ہوتا،ایک گہماگہمی سی اپنے ہی اندر چل رہی ہوتی تھی۔

اب ڈیجیٹل دور میں بچوں کو کارڈز بنانے اوربذریعہ ڈاک بھجوانے کا کچھ پتا ہی نہیں ،نئی نسل کو click کا پتا ہے send کرنے کا delete ، error ،Gmail، Hotmail،Facebook کا تو پتا ہے لیکن ڈاک کے ذریعے خط اور کارڈ بھیج کر جواب کا انتظار کرنے کی مشق نہیں،نئی نسل سے مراد وہ بچے جن کی پیدائش 2000 کے بعد ہوئی یا جنہوں نے 90 اور اس سے پہلے کی دہائی نہی دیکھی ۔2000 کے بعد انٹر نیٹ کی دنیا نے بچوں کو اجتماعیت سے دور کرکے محض اپنی ذات تک محدود کردیا۔ بعدازاں اس جدید ٹیکنالوجی نے ہر طبقہ کے افراد کو گھیر لیا اور ہاتھ سے لکھے اور بنائے جانے والے کارڈز کاتصور ناپید ہوکر رہ گیا۔

چاول چن رہی تھی نیندآگئی
صبح اٹھ کر دیکھا تو عید آگئی
سویاں پکی ہیں سبھی نے چکھی ہیں
کیوں روتی ہو تمہارے لئے بھی رکھی ہیں

ہمیں اپنے بچپن کی عید اور اس کی تیاریاں کبھی نہیں بھولتیں اور نہ ہی کبھی یہ اشعار۔
میری آرزوؤں کی تمہید تم ہو
میرا چاند تم ہو میری عید تم ہو

نوجوان لڑکے اور شرمیلی لڑکیاں بھی ایک دوسرے کو کارڈز بھجواتے مگر یہ کام محکمہ ڈاک کے ذریعے نہیں بلکہ محلے کے ڈاکئے یعنی چھوٹے بچوں کو کوئی لالچ دے کر کروایا جاتا،اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا کہ ابا اور اماں کی نگاہ سے اوجھل یہ کاروائی کی جائے ورنہ دوسری صورت میں رسوائی کم اور پٹائی ذیادہ ہوجانے کے امکانات ہوتے۔

روایتی عید کا تہوار ملنے ملانے اور تحائف دینے اور لینے کے علاوہ بھی بہت ساری سرگرمیوں پر مشتمل تھا جیسے کہ ہماری اسلامی تعلیمات میں بھی عید سے متعلق احکامات اور رہنمائی موجود ہے تو ناصرف عید کا منانا ہماری خوشی کے سبب ہے بلکہ اسے مذہبی فریضہ بھی سمجھا جاتا ہے،اسلام میں اس حوالے سے خاصی تفصیل موجود ہے۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے سال میں دو عیدیں متفقہ طور پر منائی جاتی ہیں ،ایک عید الفطر جو پوری دنیا مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ اور ساری دنیا میں مسلمان جہاں جہاں رہتے ہیں یہ عید ایک ساتھ ہی مناتے ہیں ، البتہ ماہ رمضان کے بعد ماہ شوال کا چاند دیکھنا بھی ایک مذہبی روایت ہے کہ جب ۲۹روزے ہوجائیں تو مسلمان مغرب کے بعد آسمان پر چند منٹوں کے لئے نمودار ہونے والے نئے چاند کو دیکھنے کا اہتمام کریں اگر چاند نظر آجائے تو ۲۹ روزے اور اگر نہ دکھائی دے تو ۳۰ روزے مکمل کرکے اگلی سحر عید الفظر کی ہوگی ،اوراس روز یعنی عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔

کیونکہ یہ عید اللہ کی جانب سے صوم و صلاہ و عبادات رمضان کا انعام و تحفہ ہوتا ہے۔ فطر کے معنی روزہ توڑنایعنی کھولنا یا ختم کرنا یعنی مکمل کرنا ،کے ہیں یعنی عید الفطر کے دن سے قبل روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اور اللہ تعالی اپنے عبادت گزار بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عید الفطر کی صورت میں عطا فرماتے ہیں۔

امام احمد اور بیہقی سے روایت ہے،’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کو رمضان المبارک میں پانچ ایسی خصوصیات عطا کی گئی ہیں جو اس سے قبل کسی امت کو عطا نہیں کی گئیں: پہلی یہ کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ دوسری یہ کہ فرشتے ان کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ افطار کر لیں۔تیسری یہ کہ اللہ تعالی ہر روز اپنی جنت کو مزین کرتا ہے، پھر فرماتا ہے عنقریب میرے صالحین بندے دنیا کی تھکاوٹ اور تکالیف سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں گے، چوتھا یہ کہ اس مہینے میں سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان (روزہ داروں) کو بخش دیا جاتا ہے۔

ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ(آخری رات) شبِ قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ بلکہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہو جاتا ہے تو اسے مکمل مزدوری دی جاتی ہے؟

دوسری عید الضحی جو حج کے بعد منائی جاتی ہے اور اسے قربانی کی عید بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس عید میں مسلمان ابراہیم ؑ کی سنت کے مطابق اپنا لاڈلا جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ عید الاضحیٰ تین روز پر مشتمل ہوتی ہے،دونوں عیدیں خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ یگانگت و اتحاد امت کا پیغام بھی ہیں، عید کو مذہبی تہوار کے طور پر منانے کے لئے کچھ آداب ،عبادات، عادات اور روایات مختص ہیں، ان کا اجمالی بیان وخلاصہ مندرجہ ذیل ہے:

صبح سویرے اٹھنا
عید کے روز مسلمان سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں، نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سے مسلمانوں کے یہاں نماز عیدکی تیاری ہونے لگتی ہے۔

غسل کرنا
عید کے موقع پر حجامت بنوانا ،ناخن کاٹنا،مسواک کرنا چاہیے۔ مسنون طریقے سے غسل کرنے کا عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے.عید کے موقع پر حجامت بنوانا ،ناخن کاٹنا،مسواک کرنا چاہیے۔ مسنون طریقے سے غسل کرنے کا عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے غسل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: “اگر چاہو تو روزانہ غسل کرو” تو آدمی نے کہا: “نہیں! جسے غسل کہا جاتا ہے اس کے بارے میں سوال ہے” تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “وہ غسل جمعہ کے دن، یوم عرفہ کے دن، عید الاضحی، اور عید الفطر کے دن ہوتا ہے”

نئے یا صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنا

مسلمانوں کو اگر میسر ہو تو نئے کپڑے پہنیں اگر نئے نہ ہوں تو پرانے کپڑوں کو خوب اچھے سے تیار کرکے زیب و زینت اختیار کرنا بھی مشہور و معروف عمل ہے۔

لوگ اعتکاف کے بعد وہی اعتکاف والے لباس میں عید کی نماز پڑھنے کو افضل سمجھتےہیں جبکہ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ عید کے روز نیا لباس پہننے اور اگر نیا لباس میسر نہ ہو تو دھلا ہوا صاف ستھرا لباس زیب تن کرکے نماز کی ادائیگی کا کہا گیا۔ عقلی طور پر بھی اعتکاف والے لباس میں نماز عیدین ادا کرنا مناسب نہیں کیونکہ اعتکاف ترک دنیاداری اور عبادت پر مسلسل مصروف رہنے کا نام ہے اس میں گرمی میں پسینہ وغیرہ سے کپڑوں میں بدبو اور میلا پن ہوسکتا ہے اور مسجد میں صفائی ستھرائی کے لئے بہت تردد ممکن نہیں۔

روایت ہے،”عید کیلئے سنت یہی ہے کہ خوبصورت لباس زیب تن کرے، چاہے کسی نے اعتکاف کیا ہو یا نہ کیا ہو”

عید الفطر کى نماز سے قبل کچھ کھا کر جانا
نماز عید سے پہلے کچھ میٹھا یا پھر کھجوریں کھانا جو سنت رسول ﷺہے ۔ جامع ترمذی کے مطابق حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدالفطر کے دن کھائے پیے بغیر عیدگاہ کی طرف تشریف نہ لے جاتے اور عیدالاضحی میں نماز سے پہلے کچھ تناول نہ فرماتے۔

مسجد جانے سے قبل خوشبو لگانا
روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ عید الفطر کے دن خوشبو لگاتے تھے۔”امام مالک رحمتہ اللہ کے مطابق انہوں نے اہل علم کو عیدین کے موقع پر زیب و زینت اور خوشبو لگانے کو مستحب گردانتے سنا ہے۔امام شافعی خوشبو لگانے کو مستحب کہتے ہیں۔

جامع مسجد یا عیدگاہ کا انتخاب
نماز عید کا اجتماع بڑا ہوتا ہے تو اہل علاقہ کا ایک ہی جگہ نماز عید کی ادائیگی کے لئے کسی کھلے میدان یا مختص شدہ جگہ عید گا ہ یا اگرجامع مسجد میں اجتماع کی گنجائش ہو تو سب کا ساتھ مل کر نماز عید ادا کرنا پسند کیا گیا ہے۔

تکبیرات کہنا (اللہ اکبر ،اللہ اکبر، لا الہ اِلہ اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، واللہ الحمد)
عید کا چاند نظر آئے تو تکبیر کہنا مسنون ہے۔ نہ اس کی اذان ہے نہ اقامت ،عید الفطر کے دن دو رکعت نماز عید 6 زائد تکبیروں کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:ترجمہ: تا کہ تم گنتی پوری کرو، اور اللہ تعالی کی کبریائی اسی طرح بیان کرو جیسے اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے۔ سوره البقرہ

خطبہ عید( سنت)
صحيح مسلم/ صحيح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھی ہے۔ یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔عیدالفطر کی نماز کےبعد خصوصی طور پر خطبہ عید ہوتا ہے جس میں عالم اسلام اور کل امت مسلمہ و انسانیت کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالٰی سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ کی رحمت و نعمتیں مانگی جاتی ہیں۔

فطرانہ کی ادائیگی
صدقہ فطر (خیرات )ہر صاحبِ استطاعت ، مسلمان مرد، عورت، ، پر یکم شوال سورج طلوع ہوتے ہی واجب ہو جاتا ہے۔ تِرمذی کی روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالی عَلیہ وَاٰلہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکّۂ مُعَظّمہ کے گلی کوچوں میں اِعلان کر دو، صَد قَہ فِطر واجب ہے ‘‘ ۔ مستحب تو نماز عید سے پہلے ادا کردینا ہےالبتہ عید کے بعد بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔بعض روایات میں یہ بعد از نماز عید فطرانہ کی بجائے عام صدقہ رہ جاتا ہے البتہ معروف یہی ہے کی بعد میں بھی ادا ہوجاتاہے۔

صلہ رحمی و زیارت قبور
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عید پر مسلمان جہاں زندہ رشتہ داروں سے ملتے وہیں مرحوم رشتداروں کے اہل خاندان سے بھی ملے اور نماز عید کی ادائیگی کے لئے مختلف راستوں سے آئے جائے تاکہ زیادہ لوگوں سے ملاقات کا موقع ملے، یعنی اسلام آپس میں بھائی چارہ، محبت اور صلہ رحمی سکھاتا ہے۔صحیح بخاری کی حدیث ہے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن آتے جاتے راستہ تبدیل کرتے تھے”

اسی طرح عید کے دن اپنے گھر میں موجود افراد سے ، پڑوسیوں سے ، محلے داروں سے ،رشتہ داروں اور دوستوں سے خوشی خوشی ملنا اور گرمجوشی کا اظہار کرنا پسندیدہ عمل ہے۔جو لوگ دنیا سے رخصت ہوگئے انہیں بھی خوشی کے معوقع پر یاد رکھنے کا رواج عام ہے اور اسی لئے عید کی نماز کے بعد بڑی تعداد میں مسلمان اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرنے جاتے ہیں ۔

عید مبارک کہنا
عید مبارک کہنے کے لئے اچھے الفاظ کا چناو کرنا معروف عمل ہےجیسے کہ عید کے روز ” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ” کہنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں۔
شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں:”عید کے دن مبارک باد دیتے ہوئے نماز عید کے بعد ایک دوسرے کو یہ کہنا کہ: ” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ ” یا “اللہ تعالی آپکو بار بار  نصیب کرے” اس طرح کے دیگر دعائیہ کلمات کہنا ، متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے کہ وہ ایسا کیا کرتے تھے،البتہ ائمہ کرام نے اس بارے میں رخصت ہی دی ہے، جیسے کہ امام احمد کہتے ہیں کہ: “میں کسی کو عید کی مبارکباد یتے ہوئے پہل نہیں کرتا، لیکن اگر کوئی مجھے مبارکباد دے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں، کیونکہ جواب دینا واجب ہے”نماز عید مصافحہ ومعانقہ یعنی (ہاتھ ملانا) اور (گلے ملنا) مستحب عمل ہے۔

تحائف اور عیدی دینا
گو کہ اسلام میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ تحائف اور عیدی دی جائے البتہ تحائف دینے سے متعلق ترغیب ضرور دی گئی اور یہ صرف عید کے موقع پر ہی نہیں بلکہ عام دنوں میں حصول محبت و قربت کا ذریعہ ہے،البتہ ہمارے معاشرے میں بچوں بڑوں کو نقد عیدی دینے کی بھی ایک شاندار روایت موجود ہے ، دور جدید میں یہ روایت بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے کیونکہ اب پہلے کی طرح بچے صبح اٹھ کر تیار ہونے میں سستی کرتے ہیں اورپڑوس میں جانے کی راہ میںprivacy جیسی عالمی بیماری رکاوٹ بن چکی ہے حالانکہ ہمارے بچپن میں جب تک ہم سارے محلے کے سبھی گھروں سے پھر کر عیدی اور بزرگون کی دعائیں نہ سمیٹ لیتے تب تک ہماری عید کا کوئی تصور ہی نہ تھا،ہم یہ خواہش اور امید ضرور رکھتے ہیں کہ ہمارے بچے اور آنے والی نسل اپنے اسلاف کی روایات اور مذہبی تہوار اسی جوش و جذبہ سے مناتے رہیں گے جیسے ڈیجیٹل دور سے قبل منائے جاتے رہے

یہ عید منانے کے انداز اور عید کی خوشیاں ہم سب کا حق ہیں۔عید خوشیوں کے لوٹنے یعنی پلٹ آنے کا نام ہے جو اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں کو ماہ رمضان کی پابندی کے بعد انعام کے طور پر عطا فرمائی۔

 

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp