عیدالفطر جو مسلمانوں کے لیے خوشی منانے کا ایک با برکت تہوار ہے، رمضان کی بے پناہ عبادات اور ریاضتوں کے بدلے میں رب کریم تحفے میں اس دن کو منانے کے لیے تمام مسلمانوں کو خوشیاں بانٹنے، بغض، حسد اور کینہ ختم کر کے محبتوں کو دوام بخشنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
آج کی نوجوان نسل نے گزشتہ کچھ برسوں میں جو عیدیں منائیں ان کا تسلسل بہ تدریج ایک سا ہے لیکن ہم جب اپنے بچپن کی یاداشتوں کے کواڑ کھول کر ان کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں آج کے دور سے بہت مختلف عید دکھائی دیتی ہے۔
عید، جو کہ اب ورچوئل مسیجنگ کی ایک یک سطری گریٹنگ سی بن کر رہ گئی ہے، کبھی ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر باضابطہ طریق سے منائی جاتی تھی۔آج کی عید بند کمروں میں تکیہ لگائے نوجوان نسل کے ہاتھوں کی انگلیوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے، ایک ہی پیغام کو اپنے موبائل پر ٹائپ کر کے سینڈ ٹو آل کا بٹن دبایا اور عید مبارک ہو گئی۔
مجھے کچھ کچھ یاد ہے کہ ہماری عید کھلے صحن میں بچھے بڑے بڑے پنگھوڑوں پر بیٹھ کر گپ شپ کی صورت کھلتی تھی، عید کے روز علی الصبح فجر کی ادائی کے بعد ہی گہما گہمی شروع ہو جاتی تھی، گھروں کے چولہوں میں تھمی دھیمی سی اپلوں کی آنچ میں مٹی کے برتن میں کاڑھنی دھری جاتی تھی، گاؤں کی واحد جامع مسجد میں ایک بھرپورمجمع اکٹھ ہوا کرتا تھا۔
گاؤں کا شاید ہی کوئی فرد عید کی نماز کی ادائیگی کے فریضے سے محروم رہتا تھا، اگر کوئی رہ جاتا تو گھر کی بزرگ خواتین بھی انھیں لعن طعن کرتی دکھائی دیتی تھیں، اسی لیے لڑکے مسجد جانے میں ہی عافیت سمجھتے۔
سویاں عیدالفطر کی ایک سوغات سی بن کر اپنی مہک سے دل لبھانے کو جی للچاتی تھیں، خوش نما لباس میں عطر کی مہک لپیٹے یار لوگ جو برسوں بعد ایک دوسرے کی جھلک تکنے کو تڑپ جاتے تھے ، ایک دوسرے کے گھر جا کر ملنے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے، کوئی بیرون ملک سے چھٹی آیا ہوتا تھا، کوئی فوج کا ملازم، کوئی شہر کی نوکری سے رخصت لے کر اپنے آبائی گھر پہنچتا۔
عید پڑھتے ہی اکثر لوگ اپنے پرکھوں کی قبروں پر فاتحہ کے لیے سیدھا مقام مرقد پر حاضری دے کر ہی گھر لوٹتے۔خواتین نت نئے پکوان چولہوں پر چڑھاتیں اور سہ پہر تلک خوب کھابے کھائے جاتے، شام کو سکھیاں دارے میں لگے قدیم درخت پر جھولے جھولنے چل دیتیں ، باضابطہ پینگھ کے جھولنے کی رفتار اور اونچائی پر مقابلے کی فضا سی بن جاتی، گاؤں کے لڑکوں کو منادی کی صورت دارے کی طرف جانے سے خبردار کر دیا جاتا اور یوں شام کے سائے ڈھلتے ہی ایک خوب صورت ، سادہ اور فطرت کے قریب دن کا اختتام ہو جاتا۔
آج کی عید اس عید سے کہیں مختلف ہے مگر، زندگی بند کمروں کی گھٹن میں سہم کر رہ گئی ہے اور ہر سمت ایک مصنوعی، کھوکھلی سی مروت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، سادہ دلوں پر مکاری کی سیاہیاں ہیں اور سانس ساکن ہے شاید۔۔رات باقی ہے مگر خواب کہ آیا ہی نہیں۔۔۔