انسانوں اور جانوروں کا ساتھ بہت پرانا ہے اور ان کے مابین مثالی محبت کا مشاہدہ بھی کوئی انہونی بات نہیں۔ گو انسان ایک حد تک اپنے پالتو جانوروں کی تکلیف اور جذبات کا اندازہ کر بھی لیتا ہے لیکن اب مصنوعی ذہانت اس عمل کو مزید آسان اور درست ترین بنادے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پرندوں اور جانوروں کو مارنے کا سلسلہ نہ رکا تو انسان کی زندگی کتنی رہ جائے گی؟
مصنوعی ذہانت (اے آئی) جلد ہی جانوروں کے جذبات کو سمجھنے خصوصاً ان کے درد و تکلیف کا پتا لگانے میں اہم کردار ادا کر سکے گی۔
مختلف اداروں کے محققین جانوروں کے تاثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے تیزی سے ایک اے آئی نظام تیار کر رہے ہیں جس کی مدد سے کاشتکاری، ویٹرنری کیئر اور پالتو جانوروں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے انقلاب برپا ہوسکے گا۔
مویشیوں میں سر درد کی نشاندہی
یونیورسٹی آف دی ویسٹ آف انگلینڈ برسٹل اور اسکاٹ لینڈ کے دیہی کالج میں سائنس دان ایک ایڈوانس سسٹم تیار کر رہے ہیں جو مویشی کے چہرے کے تاثرات کو اسکین کرسکے گا جس سے درد، بیماری یا جذباتی تکلیف کی علامات کا پتا لگایا جاسکے گا۔
اس کے ذریعے مویشی مالکان ممکنہ صحت کے مسائل کا فوری حل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔
کتوں اور گھوڑوں کے لیے چہرے کی پہچان
دریں اثنا حیفہ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ ٹیم کتے کے چہرے کے تاثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے خاص طور پر تکلیف کا پتا لگانے کے لیے اے آئی کا اطلاق کر رہی ہے۔
مزید پڑھیے: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ٹیم نے پہلے چہرے کی شناخت کا سافٹ ویئر تیار کیا تھا جس سے لوگوں کو گمشدہ کتوں کا پتا لگانے میں مدد ملتی تھی۔ ان کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کتے اپنے چہرے کی 38 فیصد حرکتیں انسانوں کے ساتھ بانٹتے ہیں جو اے آئی کو ان کے جذبات کو سمجھنے کے لیے ایک قابل قدر ٹول بناتا ہے۔
مزید پڑھیں: بندروں کی ایک اور خفیہ صلاحیت: وہ بھی انسانوں کی طرح بول سکتے ہیں
دریں اثنا ساؤ پالو یونیورسٹی کے محققین گھوڑوں میں درد کا پتا لگانے کے لیے اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ نظام گھوڑوں کی آنکھوں، کان اور منہ پر فوکس کرکے درد کی علامات کی نشاندہی کرتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس طریقہ کار نے 88 فیصد درست نتائج دیے ہیں۔
جانوروں کی بہبود میں اے آئی کا مستقبل
یہ کامیابیاں بتاتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت جانوروں کے رویے کی تحقیق کو بڑھا سکتا ہے۔ اگرچہ موجودہ ماڈلز اب بھی انسانی مشاہدات پر انحصار کرتے ہیں لیکن مصنوعی ذہانت جلد ہی جانوروں کے جذبات کی آزادانہ طور پر اور بھی زیادہ درستگی کے ساتھ تشریح کرسکے گی۔