سنہ2014 میں انڈیا کی مودی سرکار نے میک ان انڈیا انی شیئیٹو کا اعلان کیا۔ اس کے تحت انڈیا میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور پروڈکشن شروع کی جانی تھی۔ اسی پروگرام کے تحت انڈین ایئر فورس نے 114 سنگل انجن فائٹر جیٹ خریدنے کا اعلان کیا۔ یہ ایک بڑا آڈر تھا جس کی بنیادی شرط یہ بھی تھی کہ انڈیا کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی جائے۔ انڈیا میں ان طیاروں کی پروڈکشن بھی کی جائے۔
اس ابتدائی پروگرام میں لاک ہیڈ مارٹن کا ایف سکسٹین اور سویڈن کی ساب کمپنی کا گرپن ای ہی 2 طیارے شارٹ لسٹ ہوئے تھے۔ ایف 16 کو انڈیا کی ضرورت کے مطابق تبدیل کر کے اس کا نام ایف 21 رکھا گیا تھا۔ جس حساب سے انڈین آڈر کے سامنے عالمی کمپنیاں آلو شوربا ہو رہی تھیں۔ ہم دل مسوس کر رہ گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چابہار پر امریکی پابندیاں، پاکستان کے لیے نئے امکانات
سال 2017 کے آخر اور سال 2018 کے شروع میں انڈین حکومت نے ٹوئن انجن فائٹر جیٹ کو بھی خریداری لسٹ میں شامل کر لیا۔ وجہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے درپیش مشکلات تھیں۔ انڈیا حساس ٹیکنالوجی روس اور اس کے رستے چین سے کیسے بچائے گا۔ انڈیا کو ایف 16 نام بدل کر خریدنا بھی خاص پسند نہیں آیا تھا۔ وجہ یہ بھی تھی کہ جتنا بھی نیا ہوا پاکستانی اس جہاز کے اچھے واقف ہیں۔ ٹوئین انجن کا آپشن لینے سے ایف 18 ای ، رافیل ، مگ 35 ، یوروفائٹر ٹائفون اور ایس یو 35 بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کے دورہ واشنگٹن پر کہا ہے کہ انڈیا ہم سے بڑی دفاعی خریداریاں کرے گا۔ جس کے بعد ایف 35 کی انڈیا کو فروخت کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے کہا ہے کہ یہ ابھی صرف ایک تجویز ہے۔ انڈین سیکریٹری خارجہ کے بیان سے ہچکچاہٹ جھلکتی ہے۔ تو سوال بنتا ہے کہ ٹرمپ نے تو آفر دی ہے، انڈین کیا اسے دھمکی سمجھ رہے ہیں۔
امریکی کانگریس ریسرچ سروس کے مطابق انڈین فورسز کو ایک بڑے اپ گریڈ کی ضرورت ہے۔ انڈیا اگلے 10 سال میں اس اپ گریڈ پر 200 ارب ڈالر خرچے گا۔ یہ ایک بڑی رقم ہے جس پر عالمی ڈیفنس انڈسٹری کی نظر ہے۔ انڈیا کی بحری، بری اور فضائی افواج کا بڑا انحصار روس پر ہے۔
روس پر انڈین فورسز کا انحصار اپنے عروج پر 70 سے 85 فیصد تک رہا ہے۔ اس انحصار کو کم کیا جا رہا ہے۔ انڈین آرمی کے پاس 90 فیصد دفاعی سامان اور آلات روسی ساخت کے ہیں۔ انڈین ایئر فورس کے 71 فیصد فائٹر جیٹ روسی ساخت کے ہیں۔ ان میں ایس یو 30، مگ 29 اور مگ 21 شامل ہیں۔ انڈین نیوی کا صرف 44 فیصد دفاعی سامان روسی ہے۔
مزید پڑھیے: افغانستان میں اندرونی تناؤ، ہمارے امکانات اور امریکا
انڈیا امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ یہ ایسا پارٹنر ہے جس کا دفاعی انحصار سارا ہی روس پر ہے۔ انڈیا امریکا کی باہمی تجارت 129 ارب ڈالر ہے۔ انڈیا 87 ارب ڈالر کا سامان امریکا کو بیچتا ہے اور امریکا سے 42 ارب ڈالر کی خریداری کرتا ہے۔ امریکی مصنوعات پر انڈیا میں ٹیرف زیادہ ہے اور انڈین مصنوعات پر امریکا میں ٹیرف کم ہے۔
اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کو ٹیرف ابیوزر بھی کہتا ہے۔ ایسا ملک جو امریکا سے کماتا تو ہے لیکن امریکا سے خریداری نہیں کرتا۔ تجارتی عدم توازن 45 ارب ڈالر کے ساتھ انڈیا کے حق میں ہے۔ بائیڈن دور میں انڈیا نے امریکا سے 4 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدا۔ ٹرمپ اب مودی پر زور زبردستی دفاعی سامان بیچنا چاہ رہا ہے۔
انڈیا کے پاس روس کا جدید ایس 400 میزائل سسٹم بھی ہے۔ یہ میزائل سسٹم خریدنے پر امریکا نے ترکی کو ایف 35 کے پروگرام سے نکال دیا تھا۔ ایف 35 پروگرام کے تحت ترکی کو بہت سے آلات اس فائٹر جیٹ (ایف 35) کے تیار کرنے تھے اور جدید امریکی ٹیکنالوجی بھی ترکی کے ساتھ شریک کی جانی تھی۔
ترکی کو پروگرام سے نکالنے کی تکنیکی وجوہات تھیں۔ ایس 400 روس کا جدید میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔ یہ جدید انداز میں ڈیٹا جمع کرتا ہے۔ ایف 35 کی ترکی کے پاس موجودگی کی صورت میں حساس ڈیٹا روس کے ہاتھ لگنے کا حقیقی خطرہ موجود تھا۔ اب یہی صورتحال انڈیا کی ہے۔ اب یہاں رک کر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان پھر پڑھیں، جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ہم انڈیا کو دفاعی سامان فروخت کریں گے۔ جس کے بعد بتدریج انڈیا کو ایف 35 بھی مل سکیں گے۔
مزید پڑھیں: چین کا بحری سلک روٹ، ٹرمپ اور ہم
آسان زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ روسی اسلحے پر انڈین انحصار ختم کیا جائے۔ کوئی مذاق اے؟ ہمارا بھارت مہان اپنے دفاع پر 70 فیصد انحصار روس پر کرتا ہے۔ ٹرمپ جس دور کی بتی پیچھے انڈیا کو روانہ کرنا چاہ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈیفنس کو اپ گریڈ کرنے کی بجائے مکمل تبدیل کرنا ہے۔
انڈیا دنیا کی چوتھی بڑی دفاعی قوت ہے۔ اتنی بڑی وار مشین کو تبدیل کرنا اس پر ہونے والے اخراجات کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ انڈیا جو علاقے کے چودھری کی طرح بی ہیو کرنے لگ گیا تھا۔ اس کی ساری چودھراہٹ پر ٹرمپ کا ریگ مال پھر گیا ہے۔ آپ صورتحال پر اتنا نہ مسکرائیں کہ ہم ہنستے ہوئے پکڑے ہی جائیں۔ کہانی کے بہت سے رخ اور بھی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔