کوئٹہ کے علاقے غوث آباد میں واقع شہید بینظیر بھٹو اسپتال کی عمارت 2010 میں تعمیر کی گئی تھی۔ 2018 تک اسپتال غیر فعال ہونے کی وجہ سے علاقے کے نوجوانوں نے علم کے فروغ کا بیڑا اٹھایا اور اسپتال کی عمارت کو پبلک لائبریری میں تبدیل کر دیا۔ جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتابوں اور طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ تاہم صوبائی حکومت نے رواں برس اسپتال کو دوبارہ فعال بنانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
لائبریری کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ایک طویل عرصے تک عمارت خالی رہی اور کھنڈر میں تبدیل ہو رہی تھی، ایسے میں ہم نے اس عمارت میں لائبریری قائم کر دی، جس سے نہ صرف عمارت استعمال میں آئی بلکہ علاقے کے بچوں کی علم کی پیاس بھی بھجنے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت لائبریری میں 10 ہزار کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس اس وقت 1500 رجسٹرڈ اسٹوڈنٹس ہیں۔ اب حکومت نے یک دم اسپتال فعال کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں ایسے میں ان بچوں اور 10 ہزار کتابوں کو کہاں لے جائیں؟
حکومتی فیصلے سے طالب علم بھی مایوس ہوگئے ہیں۔ طلبہ کا مؤقف ہے کہ حکومتی اقدام سے ان کے مستقبل کو نقصان پہنچے گا، حکومت اسپتال فعال بنائے ہم اس فیصلے کے حق میں ہیں۔ لیکن ہمیں لائبریری کے لیے متبادل جگہ بھی فراہم کی جائے۔
محکمہ صحت بلوچستان کا مؤقف ہے کہ شہید بینظیر اسپتال سرکار کی ملکیت ہے۔ عمارت کا سار اسٹرکچر اسپتال جیسا ہے، اسے تعلیمی ادارے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عمارت کو خالی کروایا جائے گا۔
ایسے میں سوال مگر پھر وہی ہے کہ لائبریری کی 10 ہزار کتابیں اور 1500 رجسٹرڈ طلبا و طالبات کہاں جائیں گے؟