اکثر لوگ سوچتے ہوں گے کہ ستتر برس ہو گئے اور ان برسوں میں کیا کچھ نہیں ہوا مگر بلوچستان نے ترقی نہیں کی۔ نہ وہ لاہور کی طرح روشن ہوا نہ کراچی کی طرح بزنس میں اس کا کوئی نام ہوا، نہ پشاور کی طرح وہ سیاسی طور پر بیدار ہوا۔ بسا اوقات لگتا ہے کہ ان قریباً آٹھ دہائیوں میں بلوچستان ایک جمود کا شکار رہا۔ نہ بیدار ہوا نہ ترقی کی نہ کاروبار میں نام بنایا نہ امن وہاں پر آیا۔ ایسا کیوں ہوا ؟ کون ہے اس خوبصورت خطہ زمین کے لوگوں کا قصور وار؟ بحیثیت پاکستانی ہمیں جاننے کا حق ہے کہ اس تنزلی کا الزام کس کو دینا ہے؟
سوال اتنا سہل نہیں کہ اس کا سیدھا سادا جواب ہو اور آپ کسی ایک پر الزام لگا کر اس کو مجرم ثابت کریں اور پھر بیک جنبش قلم اس خطے کی محرومیوں کا اختتام ہو جائے۔ اس سوال کے کئی پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو جغرافیائی ہے، ایک پہلو معاشی ہے، ایک سیاسی ہے، اور کہانی کا ایک سرا بین الاقوامی بھی ہے۔ ان سب پہلوں پر بات کریں تو بات سمجھ آ سکتی ہے۔ تنہا کوئی واقعہ، تنظیم یا ادارہ بلوچستان کے مسائل کا حل نہیں پیش کر سکتا۔
جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ صوبہ اتنا بڑا ہے کہ رقبے کے اعتبار سے ملک کا چوالیس فیصد حصہ ہے اور آبادی کے اعتبار سے ملک کی صرف سات فیصد آبادی یہاں مقیم ہے۔ یہ مشکل علاقہ ہے۔ سنگلاخ پہاڑ، پانی کی قلت، انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اس علاقے کو مزید مشکل تر بنا دیتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اب بھی ایسے علاقے ہیں جہاں بنی آدم نے کبھی قدم نہیں دھرا۔ گاڑی پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے چوبیس گھنٹے سے زیادہ بھی درکار ہو سکتے ہیں۔
ہم نے ابھی تک نہ پنجاب میں تمام سڑکیں بنائیں نہ سندھ کو تعلیم کی روشنی سے منور کیا نہ کے پی کے میں صحت کی تمام سہولیات بہم پہنچائیں تو یہ بات تو واضح ہے کہ ایک ایسے صوبے میں جہاں آبادی بہت کم ہے وہاں کی سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں پر کسی کی توجہ کم ہی رہی ہے۔
ترقی کے بنیادی مدارج سے بہت دور بلوچستان ہے۔ جغرافیے کے ماہر بتاتے ہیں کہ پاکستان کے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر بھی بلوچستان میں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا مشکل ہے۔ بہتر ہے کہ وہ بلوچ علاقے جہاں آبادی زیادہ ہے وہاں بلوچوں کی بڑی آبادیاں تعمیر کی جائیں اور ترقی کی شمع روشن کی جائے مگر اس سے تمام مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
اس معاملے کا ایک معاشی پہلو بھی ہے کہ آبادی کم ہے۔ ترقی کا فقدان ہے، ذرائع محدود ہیں اس وجہ سے ملکی خزانے میں بلوچستان زیادہ حصہ ڈالنے سے قاصر رہتا ہے۔ بجٹ کو دیکھیں تو ملکی خزانے میں بلوچستان جو حصہ ڈالتا ہے اس سے کئی سو گنا زیادہ وفاق بلوچستان کے خزانے میں ڈالتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے بعد بلوچستان کو اس کا حصہ پورا ملتا ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی محرومیاں دور نہیں ہوتیں۔ اس کے جواب کو جاننے کے لیے اس قضیے کے سیاسی پہلو پر غور کرنا ضروری ہے۔
بلوچستان قیام پاکستان سے ہی سیاسی انتشار کا شکار رہا۔ خان آف قلات کا معاملہ ہو، ایوب کے خلاف شورش ہو، بھٹو صاحب کا نیپ پر کریک ڈاؤن ہو ، بلوچ سرداروں کی آپس میں جنگ ہو، ستر کی دہائی میں بگٹی صاحب کے بلوچوں پر مظالم ہوں، مشرف دور میں اکبر بگٹی کا قتل ہو، یا پھر حالیہ علیحدگی پسند تحریکیں ہوں۔ بلوچستان سے سب نے فائدہ اٹھایا مگر بلوچستان کو فائدہ پہنچانے والے کم رہے۔ افلاس، بے روزگاری اور پسماندگی کے بیچ میں دھنسا یہ خطہ بہت سی محرومیوں کا شکار رہا۔ ہر کسی نے اس سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس عمل میں بلوچ سیاست دان اور سردار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
اس معاملے کا بین الاقوامی پہلو یہ ہےکہ ہم جس محاذ پر کمزوری دکھاتے ہیں وہ دشمن کے لیے ’موقع‘ بن جاتا ہے۔ بلوچستان میں بھی بہت سی ایسی بین الاقوامی قوتوں کی در اندازی رہی ہے جو پاکستان دشمن ہیں۔ بلوچستان کی اہم جغرافیائی حیثیت کےاعتبار سے نہ بھارت کو اس کا سکون قبول ہے نہ افغانستان کو اس کی ترقی سے کوئی لگاؤ ہے۔ اور ایران کےا س خطے میں اپنے ہی عزائم ہیں۔ ان بین الاقوامی طاقتوں میں پھنسا ارض پاک کا یہ ٹکڑا سازشوں کا شکار بھی رہا اور محرومیاں بھی اس کا مقدر بنیں۔ بلوچستان کو کسی نے ترقی نہیں کرنے دی۔ گوادر کی بین الاقوامی معاشی اور جغرافیائی حیثیت ہمارے دشمنوں کو قبول نہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں کا سلسلہ آئے روز ہمارے ماتھے پر خون لکھ جاتا ہے۔
پاکستان بہت خوش قسمت بھی ہے کہ دنیا جہان کے قدرتی ذخائر، مناظر، موسم اور اجناس ہم کو قدرت نے عطا کیے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اللہ کی اس حسین امانت کو سنبھال کر نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ اس سرزمین سے وہ لوگ اٹھتے رہے ہیں جو بیرونی ایجنڈے پر چلتے اور اس خطے کو برباد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بی ایل اے جیسی نفرت انگیز تحریکیں ہمارے ماتھوں پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ آئے روز پنجابیوں کا قتل اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا اس پر خاموش رہنا اور پھر انسانی حقوق کا واویلا کرنا اس سوچ کو ترویج دیتا ہے جو پاکستان مخالف ہے۔
ماضی کا ماتم بہت ہو چکا، اب مستقبل کی بات کرنی چاہیے۔ سعودی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں سرمایہ کاری کی نوید بلوچستان کے روشن مستقبل کی دلیل ہے۔ اس سے روز گار بھی بڑھے گا، معیشت کی ترقی کا پہیہ بھی چلے گا، انفرا سٹرکچر بھی بنے گا۔ افلاس بھی ختم ہو گا۔ اربوں ڈالر کی اس سرمایہ کاری کے معاہدے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں سے پچیس فیصد منافع بلوچستان کے حق کے طور پر بلوچوں کو ادا کیا جائے گا اور پچیس فیصد حکومت پاکستان کے خزانے میں جائے گا۔
اب بلوچستان کی محرومیاں دور ہونے کا اک امکان نظر آ رہا ہے۔ یاد رکھیں جو بھی اس سرمایہ کاری کے خلاف ہو گا وہ بلوچستان کی ترقی سے مخلص نہیں ہو گا۔ اپنے ہی پلوں کو مسمار کرنے والے، سرکاری املاک کو توڑ دینے والے، اپنے ہم وطنوں کو قتل کر دینے والے، ترقی کے ہر منصوبے کی مخالفت کرنے والے کسی اور کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ ان کو پاکستانی نہیں کہا جا سکتا۔
بلوچستان ہمارے جسم کا حصہ ہے۔ اس سرزمین میں بے شمار امکانات ہیں۔ اس کے پہاڑوں میں بہت سونا ہے۔ اس کے شہریوں کے ذہنوں میں بہت زرخیزی ہے۔ ترقی اس صوبے کا حق ہے۔ تو یقین رکھیے اگر یہ اللہ کی مرضی ہے اور ہمیں پاکستان سے محبت ہے تو بلوچستان کی محرومیاں یقیناً دور ہوں گی۔ اور اب دیر نہیں ہے کہ وہاں نفرت انگیز پراپیگنڈے کے بجائے محبتوں کا سفر شروع ہونے کو ہے ۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔