حریف بن جانے والے عمران خان اور نواز شریف کی سیاست میں انٹری سے متعلق دلچسپ حقائق

منگل 25 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کی سیاست میں 2 اہم کردار ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے کے سخت گیر حریف ہیں مگر ان دونوں کی سیاست کا آغاز ایک تاریخ اور ایک ہی مہینے میں ہوا۔

یہ دونوں ہی کردار کبھی دوست ہوا کرتے تھے مگر پھر ان کے مابین رنجشیں بڑھنے لگیں جو اب بڑھتے بڑھتے دشمنی میں تبدیل ہوچکی ہیں۔

ان سیاسی شخصیات میں سے ایک نواز شریف اور دوسرے عمران خان ہیں جن کی سیاست کا آغاز 25 تاریخ اور اپریل کے مہینے میں ہوا لیکن سال مختلف تھا اور سیاست کے آغاز میں لگ بھگ 16 برسوں کا فرق ہے۔

نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز تو اپنے وقت کی ایک بڑی سیاسی جماعت تحریک استقلال سے کیا لیکن سیاسی افق پر انہیں اس وقت پہچانا گیا جب وہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں پنجاب کے وزیرِ خزانہ بنے۔

لاہور کے کاروباری خاندان کے سپوت نواز شریف نے 25 اپریل کو پنجاب کے صوبائی وزیر کا حلف اٹھایا اور پھر وزیرِاعلی کے بعد وزیرِاعظم کا سفر شروع کیا اور ملکی تاریخ میں واحد سیاستدان ہیں جو 3 مرتبہ وزیرِاعظم بنے ہیں۔

دوسری طرف عمران خان نے ورلڈ کپ کی فتح کے بعد کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی اور پہلے اپنی والدہ شوکت خانم کے نام سے ملک کے پہلے کینسر اسپتال کی تعمیر میں مصروف ہوگئے اور پھر اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی۔ شوکت خانم اسپتال کا سنگ بنیاد 25 اپریل 1991 کو رکھا گیا جبکہ پارٹی کی بنیاد 25 اپریل 1996 تھی۔

یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ نواز شریف کی قومی دہارے کی سیاست میں قدم رکھنے کی تاریخ، شوکت خانم ہسپتال کے سنگِ بنیاد اور تحریک انصاف کے قیام کی تاریخ اور مہینے ایک ہی ہیں۔

شوکت خانم اسپتال کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف نے 25 اپریل 1991 کو رکھا اور 5 برس بعد سابق کرکٹر اور کپتان عمران خان کرکٹ کے میدان کے بعد 25 اپریل 1996 کو سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف قائم کی۔

یہ بات سیاسی حلقوں میں کہہ جاتی ہے کہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف جو خود کرکٹ کھیلنے کا شوق رکھتے تھے، انہوں نے عمران خان کو سیاست میں شامل ہونے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس مشورے میں اپنی جماعت کا قیام اور دوسری جماعت میں شمولیت کی تجویز ہرگز شامل نہیں ہوگی۔

ویسے تو ملکی سیاست میں کئی نامور کھلاڑی سیاست کے میدان میں بھی کامیاب ہوئے لیکن عمران خان کے سینیئر اور ان کے ساتھ فاسٹ باؤلر رہنے والے سرفراز نواز نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں لاہور کے صوبائی اسمبلی کے حلقے کا انتخاب لڑا۔ سرفراز نواز کا انتجابی نشان بھی بلا تھا اور انہوں نے اپنے مدِمقابل جماعت اسلامی کے ایک رہنما کو شکست دی اور رکن اسمبلی بنے۔ سرفراز نواز اسی پنجاب اسمبلی میں رکن تھے جس نے نواز شریف کو وزیرِاعلیٰ چنا تھا۔

عمران خان نے 1997 میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور ان کے کاغذاتِ نامزدگی کی مسلم لیگ (ن) نے مخالفت کی اور اس کی منظوری کے خلاف درخواست بھی دی جس میں سیتا وائٹ سے تعلقات کو بنیاد بنایا گیا لیکن یہ درخواست مسترد ہوگئی۔

مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اپنی ابتدا سے ہی ایک دوسرے کی سیاسی مخالف رہی ہیں لیکن وکلا تحریک میں ایک محدود وقت کے لیے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے مشترکہ کوشش کی ہامی بھری۔

2008 میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت متعدد جماعتوں نے ججز کی عدم بحالی کے خلاف انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، مگر عین موقع پر مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں شرکت کے لیے رضامندی کا اظہار کرلیا جبکہ باقی دیگر جماعتیں بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہی۔ یہ وہ لمحے تھا جب عمران خان اور نواز شریف کے تعلقات میں خرابی انتہا کو پہنچی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب عمران خان نے کُھل کر نواز شریف اور ان کی پارٹی کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور پھر 2013 میں اپوزیشن کی ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر وہ ابھرے۔

سابق فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دونوں بیٹوں نے بھی نواز شریف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) سے اپنی سیاست کا آغاز کیا مگر پھر ان میں سے ایک یعنی اعجاز الحق اس وقت تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔

لاہور شہر سے تعلق رکھنے والے ان دونوں سیاستدانوں میں چاہے کتنی ہی قدریں مشترک ہوں لیکن ایک واضح فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ نواز شریف کو پہلے عہدے ملے اور پھر وہ ایک لیڈر کے طور پر سامنے آئے لیکن اس کے برعکس عمران خان نے پہلے گراس روٹ کی سیاست کی اور ڈیڑھ دہائی کی ناکامی کے بعد وہ ایک سیاستدان کے طور پر ابھرے اور وہ 2018 کے انتجابات میں وزیرِاعظم بنے۔

نواز شریف اور عمران خان کی سیاست کے بارے میں سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ دونوں میں کتنا ہی فرق کیوں نہ ہو، ان کے ساتھ وہی چہرے ہیں جو ’اسٹیٹس کو‘ کے حامی ہیں۔

نواز شریف 12 اکتوبر 1999 کے بعد ایک مزاحمتی سیاستدان کے طور پر دیکھے گئے اور عمران خان کی مقبولیت میں ان کی حکومت کی برطرفی کے بعد کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

سیاست کے لیے درست ہی کہا جاتا ہے کہ اس میں کچھ انہونی نہیں ہے اور نہ حریف اور حلیف مستقل ہوتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp