خود کش حملہ آور دوڑتا ہوا مولانا حامد الحق کی طرف آیا،عینی شاہدین

جمعہ 28 فروری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج بعد نماز جمعہ اکوڑہ خٹک میں معروف عالم دین مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت کے حوالے سے عینی شاہد کا  بیان سامنے آگیا۔

دھماکے کے وقت جائے حادثہ پر موجود عینی شاہد اسد اللہ نے وی نیوز کو بتایا کہ دھماکہ نماز کی فوراً مسجد کے ایک کونے میں گیٹ کے قریب ہوا۔

عینی شاہد کے مطابق اس وقت مولانا حامد الحق نماز کے بعد باہر نکل رہے تھے کہ اساتذہ کے لیے مختص گیٹ سے ایک بندہ دوڑ کر آیا اور جوں ہی حامد الحق سے ملنے لگا ایک زور دار دھماکہ ہوا۔

دارالعلوم حقانیہ میں خودکش حملے میں شہید ہونیوالے مولانا حامدالحق حقانی کون تھے؟

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کی جہانگیرہ تحصیل کے قصبے میں واقع مشہور دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم اور جمیعت علما اسلام س کے سربراہ مولانا حامدالحق حقانی جمعہ کی نماز کے بعد مدرسے کی مرکزی مسجد میں ہونیوالے خودکش دھماکے میں شہید ہوگئے ہیں۔

مولانا حامد الحق حقانی ایک پاکستانی سیاستدان اور اسلامی اسکالر تھے، جو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 6 نوشہرہ 2 سے 2002 کے انتخابات میں منتخب ہوئے تھے، تاہم 10 اکتوبر 2007 تک پاکستان کی 12ویں قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں بم دھماکہ، مولانا حامد الحق سمیت متعدد افراد شہید

نومبر 2018 میں اپنے والد اور دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد مولانا حامد الحق حقانی نے جمعیت علما اسلام (س) کی باگ ڈور سنبھالی تھی، مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ پر متعدد بار چاقو کے وار کرکے قتل کیا گیا تھا۔

نوشہرہ کے قریب واقع اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ کو مولانا عبدالحق حقانی نے ستمبر 1947 میں قائم کیا تھا، جس کی سربراہی بعد میں مولانا سمیع الحق کے ذمہ آئی، افغان جنگ کے دوران بیشتر افغان طلبا نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھی۔

ذرائع کے مطابق مقتول مولانا حامد الحق حقانی اس پاکستانی وفد کا حصہ تھے، جنہیں عنقریب افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے افغانستان جانا تھا۔

مزید پڑھیں:مولانا کا دورۂِ افغانستان اور پختونخوا کے حالات

دارالعلوم حقانیہ گزشتہ کئی برسوں سے تنازعات میں گھرا رہا ہے، خاص طور پر ان الزامات کی وجہ سے کہ اس کے کچھ طلبا سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل سے منسلک تھے، لیکن مدرسے نے اس مقدمے میں ملزمان کے ساتھ کسی قسم کے تعلق سے انکار کیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق، دارالعلوم حقانیہ کے قابل ذکر سابق طلبا میں امیر خان متقی، عبداللطیف منصور، مولوی احمد جان، ملا جلال الدین حقانی، مولوی قلم الدین، عارف اللہ عارف، اور ملا خیر اللہ خیرخواہ جیسی نمایاں طالبان شخصیات شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp