یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ منرل ڈیل کرنے کو تیار ہیں۔ یہ بیان زیلنسکی نے لندن میں برٹش میڈیا کے سامنے دیا ہے۔ 28 فروری کو یوکرینی صدر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس سے ایک ملاقات کی تھی۔ میڈیا کیمروں کے سامنے یہ ملاقات شاؤٹنگ میچ میں تبدیل ہو گئی۔ اپنی ہر ممکن عزت افزائی کروا کر زیلنسکی لندن آ گئے تھے۔
امریکیوں نے زیلنسکی کے لیے جو کھانا تیار کیا وہ بھی پھر اوول آفس کے اسٹاف نے کھایا تھا ۔ یوکرینی صدر کے ساتھ امریکا میں جو کچھ ہوا اس پر یورپ کی ممتا جاگی تھی۔ امریکا دورے کے بعد یہ واضح تھا کہ یوکرین کو اگر روس کے سامنے کھڑا رہنا ہے تو پھر یورپ کا آسرا لینا ہو گا۔
یورپ کی روس کے ساتھ مخاصمت کی ایک تاریخ ہے۔ یورپ کی مشترکہ اکانومی روس سے بہت بڑی ہے۔ یورپ کے پاس بیلجیم میں روس کے بیرونی اثاثے بھی منجمد ہیں۔ ان منجمد اثاثوں کی مالیت 211 ارب ڈالر ہے۔ یہ بیلجیم کے یورو کلئر ادارے کے پاس ہیں۔ روس نے بھی یورپ کے 30 ارب پاؤنڈ کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ یورپ روس کے یہ منجمد اثاثے یا ان کا کچھ حصہ بھی یوکرین کو جنگ میں مدد کے لیے فراہم کر سکتا ہے۔ عملی طور پر یہ کوئی بہت قابل عمل آئیڈیا نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک سے بلوچستان کو فائدہ ہوا تو بہت کچھ بدل جائے گا
فرانس کے صدر ایمانوئل میکراں یوکرین میں یورپ کے فوجی دستوں کی تعیناتی کے حامی ہیں۔ ان کا آئیڈیا یہ ہے کہ مغربی یوکرین میں ایک لاکھ یورپی فوجی تعینات کیے جائیں۔ یوکرین اپنے مغربی حصے کے دفاع سے بے فکر ہو کر روس سے مشرقی یوکرین میں لڑائی جاری رکھے۔
فرانس کے پاس 2 لاکھ، برطانیہ کے پاس ایک لاکھ 50 ہزار اور جرمنی کے پاس ایک لاکھ 80 ہزار فوجی ہیں۔ کوئی بھی ملک نہ تو لڑائی کے لیے تیار ہے نہ اکیلے یا مل کر اتنی فوج یوکرین میں تعیناتی کے لیے فراہم کرنے کے قابل ہے۔ فوجی تعیناتی کے ساتھ ائر سپورٹ فراہم کرنا بھی شامل ہے ۔ تاکہ روس یوکرین کے مغربی حصے کی طرف نہ آئے ۔ اس سب میں کوئی یہ نہیں سوچ رہا اگر روس کا دل کیا آنے کو وہ آ گیا تو پھر؟
ایسا نہ بھی ہو تو اصل بنیادی سوال موجود رہتا ہے۔ وہ یہ کہ اتنی فوجی ڈپلائمنٹ اور ائر سپورٹ کا بل کون ادا کرے گا؟ ۔ یورپ یوکرین کو اسٹارم شیڈو، ٹورس لانگ رینج میزائل فراہم کر سکتا ہے۔ ایئر ڈیفنس سسٹم فراہم کر سکتا ہے۔ یوکرین کو درکار 25 لاکھ سالانہ آرٹلری شیل میں سے 20 لاکھ فراہم کر سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو روس کے لیے فوجی چیلنج بڑھ جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ یوکرین کو درکار اسلحہ کا صرف 25 فیصد ہی فراہم کرنے کے قابل ہے۔
یورپ یوکرین کے انرجی منصوبوں اور صلاحیت کی بحالی میں مدد دے سکتا ہے اور یوکرین کو تعمیر نو میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ یورپ سفارتی حوالے سے روس پر اچھا خاصا پریشر ڈال سکتا ہے۔ روس پر پابندیاں بھی لگا سکتا ہے۔ امریکا کے بغیر یہ پابندیاں البتہ زیادہ اثر نہیں کریں گی۔ یورپ سب کچھ کر کے بھی یوکرین کو زیادہ سے زیادہ 6 ماہ سے ایک سال مزید روس کے سامنے کھڑا رکھ سکتا ہے۔
مزید پڑھیے: مودی کا شائننگ انڈیا اور ٹرمپ کا ریگ مال
اس 6 ماہ سال کھڑا رہ کر اور اربوں ڈالر مزید پھوک کر کیا ملے گا۔ اس حاصل وصول کا حساب یوکرین کو کرنا ہے۔ انہیں ہی اس کو بھگتنا ہے۔ شاید اسی لیے یوکرینی صدر نے منرل ڈیل پر سائن کرنے کے لیے دوبارہ واشنگنٹن جانے کا کہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس امریکا نے یوکرین جنگ پر سعودیہ میں براہ راست مذاکرات کیے تھے۔
روس امریکا مذاکرات میں زیلنسکی کو ہٹانے پر بھی غور ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ زیلنسکی کو ڈکٹیٹر کہہ چکے ہیں۔ جس کی حمایت صرف 4 فیصد ہے۔ سنہ 2024 کے وسط میں اپنی مدت پوری ہو جانے کے باوجود یوکرین میں نئے الیکشن نہیں کرائے گئے۔ یوکرین کا آئین ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یوکرین الیکشن کے لیے سیز فائر اگر ہو جاتا ہے۔ نیا یوکرینی صدر آ کر نئے سرے سے مذاکرات اور معاہدے کر سکتا ہے۔ وہ بھی شاید بہتر پوزیشن سے۔
پاکستان کے حوالے سے یہ دلچسپ صورتحال ہے۔ جب یوکرین جنگ شروع ہوئی تو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس دن روس میں موجود تھے۔ پاکستان جنگ شروع ہونے کے بعد سے مسلسل روس کے ساتھ روابط بڑھاتا رہا ہے۔ روسی صدر پاکستان کو نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور میں شمولیت کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ سفارتی فوجی معاشی اور انرجی تعاون واضح طور پر بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: چابہار پر امریکی پابندیاں، پاکستان کے لیے نئے امکانات
ایسے وقت میں جب امریکا اور روس ایک پیج پر آ چکے ہیں۔ پاکستان کے لیے صورتحال میں سکون کے کئی پہلو ہیں۔ بظاہر پاکستان امریکا کے ساتھ الائنمنٹ میں ہی چلتا رہے گا۔ یہ الائنمنٹ ہی وہ وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی مقبولیت اور امریکی رابطوں کے باوجود اپنے لیے اب تک کوئی حمایت حاصل کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کو اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ روس کے ساتھ سفارتی معاشی تعلقات بڑھا سکے گی اور امریکی دباؤ سے بچی رہے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔