سندھی موسیقی کے لیے اپنی آدھی زندگی وقف کرنے والی نامور سندھی لوک گلوکارہ اور موسیقار ثمینہ کنول گلے کے کینسر میں مبتلا ہوگئیں۔ کنول کا پھول کہلانے والی لوک گلوگارہ کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
گلوکارہ ثمینہ کنول شدید بیمار ہیں اور علاج کے لیے مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت سید ذوالفقار علی شاہ نے ان کی علالت کا نوٹس لیا اور فوری مدد کے لیے ایک لاکھ روپے کا چیک جاری کیا۔
ترجمان کے مطابق، ثمینہ کنول کے لیے محکمہ ثقافت کی جانب سے سالانہ وظیفہ بھی مقرر ہے اور اب تک انہیں 16 لاکھ 60 ہزار روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔
معروف گلوکارہ نے اپنی زندگی میں خوبصورت آواز اور دلکش گانوں سے لوگوں کے دل موئے، متعدد سندھی ٹی وی چینلز، پی ٹی وی، اور ریڈیو پاکستان کے لیے بنیادی طور پر سندھی اور بلوچی زبانوں میں گانے گائے اور اہم مقام حاصل کیا۔ ریڈیو پاکستان میں انہوں نے سچل سرمست کی شاعری ریکارڈ کی۔ ان کے مشہور گانوں میں مہندی لگاندی، جبل ماتر جور، ادیر کانگ قاصد، آدی کنج ونجی، منہ کہا دلبر تہی جانا، متلب جا سب رشتا، حیا حیاتی میتھری دادی شامل ہیں۔
1960 سے 1970 کی دہائی میں انہوں نے معروف سندھی گلوکار سجاد یوسف، استاد برکت فقیر، اویس جمن، اللہ ڈنو جونیجو، اور اللہ ڈنو خاصیلی کے ساتھ گایا۔ روایتی طور پر شادی کی تقریبات اور خوشی کے مواقع پر آج بھی ان کے گائے جانے والے سہرہ اورلڈا گائے جاتے ہیں
یہ بھی پڑھیں: 2050 تک دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات 68 فیصد ہوجائیں گی ، ڈبلیو ایچ او انتباہ
انہوں نے فلم انڈسڑی میں اپنی آواز کا جادہ جگایا۔ جس میں پارو چانڈیو، پارو، فیصلو ضمیر جو، دھرتی مہینجی ماں، ہمت اور لکھو جیسی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں شاہ لطیف ایوارڈ اور لال شہباز ایوارڈ سمیت متعدد ایوارڈز ملے۔
ڈاکٹروں نے ثمینہ کو گانے اور ضرورت سے زیادہ بات کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے اور صرف قریبی افراد سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ان کے دوستوں اور قریبی ساتھیوں نے ان کی صحت یابی کے لیے دعاؤں کی درخواست کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کر دوبارہ اپنی خوبصورت آواز سے لوگوں کے دلوں کو چھو سکیں گی۔