مہذب اقوام کا مستقبل

جمعرات 6 مارچ 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک زمانہ وہ تھا جب یورپ اپنی کوئی پہچان رکھتا تھا، تب وہاں ایسے ادوار آئے جب مختلف سلطنتوں نے اس براعظم پر راج کیا اور اپنی طاقت کا لطف لیا۔ ان میں سے کچھ سلطنتیں ایسی بھی رہیں جو یورپ سے باہر تک پھیلاؤ حاصل کرگئیں۔ اس پورے عرصے میں یورپ کی اپنی پہچان اور خود مختاری تو تھی، مگر اس کی ایک شناخت اور بھی تھی، یہ باہم دست و گریباں براعظم بھی تھا۔ دوسری جنگ عظیم اس کی آخری بڑی مثال تھی، اس جنگ نے پورے یورپ کو ہی اتنا بدحال کردیا کہ ان کے لیے اپنے دم پر واپس اپنے قدموں پر کھڑے ہونا لگ بھگ محال نظر آتا تھا۔

ان کی اس بدحالی کا امریکا نے دو طرح سے فائدہ اٹھایا۔ ایک تو امیگریشن کا چارہ استعمال کرکے یورپ سے بڑی سطح کا برین ڈرین کرادیا۔ جس سے امریکا کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی اسپیڈ حاصل کرنا ممکن ہوگیا جو دوسری جنگ عظیم سے فقط پرل ہاربر کی حد تک ہی متاثر ہوا تھا۔ یورپ کی بدحالی کا دوسرا فائدہ امریکا نے یہ حاصل کیا کہ مارشل پلان کے ذریعے اس نے گویا یورپ کو خرید ہی ڈالا اور وہ بھی ممنون بنا کر۔ یوں وجود میں آیا وہ یورپ جہاں اب کوئی سلطنت تھی اور نہ ہی کوئی قومی خود مختاری، مشرقی یورپ سوویت تسلط میں چلا گیا تو مغربی یورپ نے امریکی ڈنڈے کی اطاعت قبول کرلی۔ سوویت زوال کے بعد مشرقی یورپ کی بھی بیشتر ریاستوں نے بھی امریکی ڈنڈے کو بوسہ اطاعت دے ڈالا۔

لگ بھگ 80 برس کا یہ عرصہ ایسا ہے جس میں یورپ باہم دست و گریباں نظر نہیں آتا، ان کی باہمی نفرت وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہی مگر نوبت کسی جنگ تک نہ جاسکی، کیونکہ امریکا نے انہیں یورپین یونین اور نیٹو کی مشترکہ چھت فراہم کرکے مفادات کے نقطہ نظر سے باہم جوڑ دیا تھا۔

سال 2025 کے بس پہلے ہی 20 دن یورپ سکون سے گزار پایا ہے، اس کے بعد کا ڈیڑھ ماہ یورپ کے لیے ایک ایسے ڈراؤنے خواب جیسا ہے جس سے یہ اب بھی ہڑبڑاہٹ کی حالت میں ہیں۔ واقعات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ابھی یورپ یہی طے نہ کرپایا تھا کہ وہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس کا ملبہ سمیٹنے کے لیے کیا کرے؟ کہ وائٹ ہاؤس میں پہلے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر اور اس سے اگلے روز یوکرینی کامیڈین زیلینسکی کی طبیعت ٹرمپ نے صاف کرڈالی۔ زیلینسکی کے ساتھ جو ہوا وہ وائٹ ہاؤس کی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ پورے جدید عہد کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ ملکوں کے مابین صورتھال اتنی تلخ ہو جایا کرتی ہے کہ مہلک جنگ کی نوبت آجاتی ہے، مگر دشمن ممالک بھی ایک دوسرے کے سربراہوں کا وقار مجروح نہیں کرتے۔

صورتحال کو سمیٹنے کی بجائے یورپ حیرت انگیز طور پر زیلینسکی کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے، انہیں لندن مدعو کرکے کمر تھپکی گئی اور یقین دلایا گیا کہ قبر میں اتارنے تک ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ذرا صورتحال کی مضحکہ خیزی دیکھیے۔ سلیکٹڈ یورپین لیڈروں کی جس میٹنگ میں زیلینسکی کی کمر تھپکی گئی اس کے اختتام پر برطانوی وزیراعظم نے ایک اعلامیہ بھی جاری فرمایا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم یوکرین کو فضائی و زمینی تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنی فوج یوکرین بھیجنے کو تیار ہیں، مگر ہماری شرط یہ ہے کہ ہماری اس فوج کو امریکی فوج تحفظ فراہم کرے جو یوکرین کو تحفظ فراہم کرے گی۔ آپ نے دنیا کی جدید سیاسی تاریخ میں ایسا لطیفہ پہلے کبھی سنا؟ سوال یہ ہے کہ اگر برطانیہ اتنا طاقتور ہے کہ یوکرین کو روس جیسی بڑی سپر پاور سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے تو پھر اتنا کمزور کیسے ہے کہ یوکرین کو تحفظ فراہم کرنے والی اس کی فوج کو امریکی فوج کا تحفظ درکار ہے؟

اس سوال کا جواب مغربی پوڈ کاسٹس کی دنیا میں قہقہوں سمیت دستیاب ہے۔ عسکری امور کے آزاد تجزیہ کاروں کے ہاں برطانوی فوج سے متعلق یہ جملہ زبان زدعام ہے کہ برطانوی مسلح افواج میں اس وقت گھوڑوں کی تعداد توپوں سے، اور ایڈمرلز کی تعداد وارشپس سے زیادہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ برطانیہ اسی سلطنت کا نام ہے آج سے 70 سال قبل تک جس کی حدود میں سورج غروب نہ ہوتا تھا، اور جس کی نیوی چار براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا عرصہ غیر معمولی سائنسی ترقی کا دور ہے، یہی وہ دورانیہ ہے جب ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کی تقسیم پولیٹکل سائنس کا حصہ بنی، اس ترقی میں برطانیہ کا حصہ کتنا ہے اس کا اندازہ آپ کو کیئراسٹارمر کے بیان سے ہو گیا ہوگا۔

حال خراب سہی مگر ماضی کے لحاظ سے برطانیہ پرشکوہ تاریخ والا ملک تو ہے، آپ ذرا اس یورپین ملک کا تکبر دیکھیے جسے نقشے پر دیکھنے کے لیے عدسے کی ضرورت پیش آئے۔ استونیا نام ہے اس کا، اس کی کل آبادی 14 لاکھ ہے، اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جو فوج بنائی گئی ہے اس کی کل تعداد 7700 ہے۔ ان میں سے بھی 3500 فوجی جبری بھرتی کے ہیں۔ اس عظیم ملک کی سابق وزیراعظم کایا کالس آج کل یورپین یونین کی خارجہ امور کی سربراہ ہیں۔ زیلینسکی والے واقعے پر اس خاتون نے ٹویٹ فرمایا وقت آگیا ہے کہ فری ورلڈ کے لیے نیا لیڈر ڈھونڈا جائے۔ یورپ کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ گویا مت اتنی ماری گئی ہے کہ خاتون یہی بھول گئیں کہ یہ وہی امریکا ہے جس نے انہیں روس سے بچانا تھا۔ اگر روس دشمن ہے، اور اپنے فری ورلڈ کے لیے آپ کو امریکا کی جگہ کوئی نیا لیڈر چاہیے تو پھر روس اور امریکا دونوں سے آپ کو کون بچائے گا؟

ہر چند کہ یورپ تاثر یہ دے رہا ہے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کی اسے کوئی خاص پروا نہیں، مگر ہم اسے ایسا بلف سمجھتے ہیں جسے ٹرمپ کسی بھی وقت کال کرسکتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھ لیجیے کہ کیا روس کو نیٹو کی نسبت سے امریکا سے بس یوکرین والی شکایت ہی ہے ؟ نہیں، روس کو ان میزائلوں پر بھی اعتراض ہے جو امریکا نے پولینڈ اور جرمنی سمیت کئی یورپین ممالک میں نصب کیے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ان میزائلوں کو ہٹانے کا اعلان کردیں تو یورپ کے اوسان کھڑے کھلوتے خطا ہوسکتے ہیں۔

مگر فرض کیجیے کہ دھتکارے جانے کے بعد یورپ امریکا سے الگ ہوجاتا ہے تو اس کے مستقبل کا نقشہ کیا بنے گا؟ یہ ایک بار پھر وہی یورپ ہوگا جس کی دوسری جنگ عظیم سے قبل کی پوری تاریخ باہمی جنگوں سے عبارت ہے۔ اٹلی، اسپین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، نیدرلینڈ اور ہنگری یہ سب ماضی کی وہ سلطنتیں ہیں جو اس براعظم پر ڈنڈے کے زور پر راج کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ ان کے ماضی کا یہ تاریخی تکبر انہیں آج بھی چین نہیں لینے دیتا۔ یہ صرف امریکا ہے جس کی چھتری تلے یہ ایک دوسرے سے لڑے بغیر چلے ہیں۔ یہ چھتری ہٹتے ہی یہ سب ایک بار پھر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یہ ایک دوسرے سے کتنی شدید نفرت کرتے ہیں، یہ سمجھنے کے لیے ان کا ڈومیسٹک میڈیا دیکھ لینا کافی ہے۔ بالخصوص ان کے ایک دوسرے سے متعلق لطائف ہی سرچ کر لیجیے جو توہین، تذلیل اور تحقیر کی بدترین مثال ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

شہباز شریف کی ڈونلڈ ٹرمپ سے تاریخی ملاقات، ’اب پاکستان کو مچھلی کھانے کے بجائے پکڑنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے‘

لاہور میں ہیوی وہیکلز ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول کا قیام، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محفوظ سفر یقینی بنانے کا وژن

ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے

ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

ایشیا کپ، 41 سال بعد پاک-بھارت فائنل ہونے کو تیار، ٹورنامنٹ فائنلز میں پاکستان کا پلڑا بھاری

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی