نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین و رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے پوری پارلیمنٹ کو استحقاق کمیٹی کا درجہ دے کر ججوں کو بلانے کا مطالبہ کر دیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ جن ججز کو سیاست اور طاقت کا شوق ہو وہ انصاف کی کرسی سے استعفیٰ دے کر سیاست میں خود کو آزمائیں۔
محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی توہین پرتحریک استحقاق کی باتیں ہوئی ہیں لیکن بہتر ہے کہ پوری پارلیمنٹ کو ہی کمیٹی ڈکلیئر کر کے ایوان کی توہین کرنے والوں کوپارلیمنٹ میں ہی بلا لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ون مین شو بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ توہین پارلیمنٹ پرپارلیمنٹ ہی پوچھ گچھ کرے تو مناسب ہوگا۔
سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی توہین کا معاملہ استحقاق کمیٹی میں اٹھایا جائے، بلاول بھٹو
وفاقی وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسبملی کی جانب سے چیف جسٹس کو خط لکھنے سے کام نہیں چلے گا کیوں کہ پارلیمان کی توہین ہوئی ہے اس لیے اب اس معاملے کو استحقاق کمیٹی میں اٹھانا چاہیے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ضمنی انتخابات بھی حکم امتناع کے باعث 90 روز سے آگے چلے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اقلیتی فیصلہ کو اکثریتی فیصلہ ثابت کر کے ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے جسے ہم کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔
بلاول نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا اختیار ہے ترمیم کا نہیں اور عدالت نے اقلیت کا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کرکے پارلیمنٹ کی توہین کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا کام یہ نہیں کہ آئین میں تبدیلیاں کرے اور ججز کو اراکین پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو عزت دینی ہوگی کیوں کہ ہم بھی انہیں عزت دیتے ہیں۔
بلاول نے کہا کہ اسپیکر قومی اسبملی کی جانب سے چیف جسٹس کو خط لکھنے سے کام نہیں چلے گا کیوں کہ پارلیمان کی توہین ہوئی اور اس کا استحقاق مجروح ہوا اس لیے اب اس معاملے کو استحقاق کمیٹی میں اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے 1973 کا آئین دلایا اور 18ویں آئینی ترمیم لائی، ہم آئین کی کسی صورت بھی خلاف ورزی نہیں کرسکتے اس لیے ججز سے استدعا ہے کہ وہ بھی پورے آئین کا مطالعہ کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں چند عناصر کی ضد کی وجہ سے پارلیمان کی توہین کی جارہی ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم وزیراعظم شہباز شریف پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور پوری پارلیمنٹ آئین کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اعلیٰ عدلیہ پنجاب اور کے پی دونوں میں انتخابات کے انعقاد کا حکم دیتی تو شاید ہم مان جاتے مگر جو فیصلہ دیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ ہم بھی تین نسلوں سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور نظر آرہا ہے کہ اس کھیل یا لڑائی میں خطرہ ہی خطرہ ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کوئی ادارہ آئین توڑنے اور پارلیمان کی بات نہ ماننے کا حکم کیسے دے سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پارلیمان 4 ججز کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ کھڑا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ اپنی حدود میں رہے اور پارلیمان کو بھی کام کرنے دے۔