امریکی پالیسی: کہیں بے نیازی کہیں ’بے بی نیازی‘

جمعرات 27 اپریل 2023
author image

عثمان جامعی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کولمبس نے پانچ صدیوں قبل جو امریکا دریافت کیا تھا اس نے حال ہی میں پاکستان میں انسان اور ان کے حقوق دریافت کر لیے ہیں۔ مبارک ہو۔ آپ تو جانتے ہیں کہ امریکا کے دریافت ہوتے ہی یورپ کے گورے اس نئی سر زمین کے حقوق کے لیے بے تاب ہوگئے تھے اور ’تیرے بیٹے تیرے جاں باز چلے آتے ہیں‘ گاتے جوق در جوق وہاں جا پہنچے تھے۔ پھر وہاں براجمان ہوکر اور ریڈ انڈینز سے حقوق ملکیت ہتھیانے کے بعد ’حق بہ حق دار رسید‘ کہہ کر مطمئن ہوگئے تھے۔ اس سب کے پیچھے فلسفہ یہ تھا کہ معدنیات، زرخیزی اور امکانات سے مالامال اس دھرتی پر ریڈ انڈینز کا نہیں انسانوں کا حق ہے اور انسان کے لیے گورا ہونا اولین شرط ہے کہ اس کے بغیر ’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘۔

اس دن سے امریکی مقتدرہ کے لیے انسانی حقوق کے قواعد و ضوابط طے پا گئے۔ انہیں قواعد اور اسی منطق کے تحت افریقہ سے لاکھوں سیاہ فام باشندے بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ کر لائے گئے تاکہ نو دریافت شدہ ملک کے نو واردان کو ’آقائی‘ کے حقوق دیے جاسکیں۔ اغوا اور آبادکاری کی یہ تفصیل آپ ایلکس ہیلے کے ناول ’روٹس‘ اور دیگر تصانیف میں بار بار بھیگ جانے والی آنکھوں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کے معاملے میں اس قدر زود حس قوم کے لیے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جوں ہی اس نے پاکستان میں انسان اور انسانی حقوق دریافت کیے فوراً ہی ان حقوق کی خلاف ورزیاں بھی سسکتی، بلکتی اور لہولہان اس کے سامنے آگئیں۔ بس اس کے بعد سے کبھی امریکی وزارت خارجہ تشویش میں مبتلا ہے تو کبھی ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن بریڈشرمین عمران خان کے لیے فکر مند نظر آتے ہیں اور کبھی سینیٹر جیکی روزن پاکستان کے حالات پر بے چین دکھائی دیتی ہیں۔

امریکی تو امریکی ان کے ہم زاد بھی تڑپ اٹھے ہیں، جیسے بھائی زلمے خلیل زاد۔ زلمے خلیل زاد جو ہمیشہ پاکستان سے پریشان نظر آتے تھے، پہلی بار پاکستان کے لیے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ بے کل کیے رکھتا ہے کہ اگر پاکستانی عدالت نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا تو پاکستان بحرانوں میں مبتلا ہوجائے گا۔ نام کی مشابہت کی وجہ سے آپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوجایے گا کہ یہ وہ مشہور خلیل خان ہے جو فاختہ اُڑایا کرتے تھے، امن کی فاختہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ صاحب امریکی باز کے لیے کبوتروں کی فراہمی کے فرائض انجام دینے کے بعد سبک دوش ہوچکے ہیں۔ انہوں نے پَر تو سمیٹ لیے مگر چونچ کو آرام نہیں۔ جب یہ افغانستان اور عراق کے لیے امریکی سفیر کی ذمے داریاں انجام دے رہے تھے تب ان دونوں ملکوں میں امریکی افواج مقامی راہ نماﺅں کو نااہل کرنے کے لیے مقدمے بنا رہی تھیں نہ کابل اور بغداد کے کسی ’زمان پارک‘ پر گرفتاری کے لیے پہنچ کر پتھر کھارہی تھیں، یعنی انسانی حقوق کی کوئی ایسی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہی تھیں جیسی پاکستان میں ہورہی ہیں، نہ کسی کو نااہل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔

واضح رہے کہ فلوجہ کے قتل عام سے افغانستان کی بستیوں میں ڈیزی کٹر بم برسا کر معصوم جانوں کے اتلاف، سیکڑوں افراد کو کنٹینر میں بھر کر انہیں پیاس بجھانے کے لیے ایک دوسرے کا پسینہ چاٹنے اور ایک سانس کے لیے سینے کو دھونکنی بنا کر گھٹن میں جان دینے پر مجبور کر دینے کے واقعات اور سر کٹی لاشوں کے رقص بسمل کے تماشے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہرگز نہیں تھی کیوں کہ کسی ’ظلمِ خلیل زاد‘ کی نظر میں یہ بے بسی سے جان دیتے لوگ انسان تو کجا جانور بھی نہیں تھے ورنہ امریکی تو اپنے کتوں کا بھی جتنا خیال رکھتے ہیں اس کے ہم معترف اور کتے شکر گزار ہیں۔

زلمے خلیل زاد کے بعد امریکی سینیٹرز کے حساس دلوں میں بھی اک لہر سی اٹھی جو درد کی تھی۔ دراصل یہ پیٹ میں اٹھنے والا مروڑ تھا جو اتنا اٹھا کہ دل تک جا پہنچا۔ اس درد کو لفظوں میں ڈھالتے ہوئے انہوں نے پاکستان کی صورت حال پر جو بے کلی ظاہر کی ہے وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سے ’مشٹیک‘ ہوگئی اور وہ ہمارے بنی گالا کو ’بنی‘ کی مناسبت سے بنی اسرائیل کے کسی بچھڑے ہوئے قبیلے کا مسکن سمجھ بیٹھے؟

جیسا کہ ہم شروع ہی میں انکشاف کر چکے ہیں کہ امریکیوں نے کچھ دنوں پہلے ہی پاکستان میں انسان اور انسانی حقوق دریافت اور ان کی خلاف ورزیاں بازیافت کی ہیں۔ اس لیے آپ کا یہ اعتراض رتی برابر اہمیت نہیں رکھتا کہ ابھی کوئی سال بھر پہلے تک پاکستان میں انسانوں اور انسانی حقوق کے ساتھ جو سلوک ہو رہا تھا اس پر ناراضی دکھاتی عرضیاں کیوں نہ لکھی گئیں اور بیانات کے ذریعے کچھ لفظوں کا زیاں بھی کیوں گوارا نہ کیا گیا؟

آپ ان سے ’دریافت‘ میں تاخیر کا شکوہ کرسکتے ہیں مگر ان پر تضاد کا الزام نہیں دھر سکتے۔ ممکن ہو سکتا ہے کہ چوں کہ اس وقت کی پاکستانی حکومت کے خلاف امریکی دل و جان سے سازش کے تانے بانے بُننے میں مصروف تھے اس لیے یہاں انسانی حقوق کی طرف دھیان ہی نہ گیا ہو۔ سازش کے تانے بانے بننا کوئی سوئٹر بننے کی طرح کا آسان کام تو ہے نہیں جو ایک زمانے میں ہماری استانیاں بچوں کو پڑھاتے ہوئے اور ٹیلی فون پر سکھیوں سہیلیوں کو ساس نندوں کے کرتوتوں کی بڑی ہی پیچیدہ کہانیاں سناتے ہوئے بڑی مہارت اور سہولت سے بن لیا کرتی تھیں۔ کارِ سازش تو وہ ہے کہ شاید اسی کے بارے میں کہا گیا ہے ’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘۔ سو جب خیر سے یہ تانے بانے بُن لیے گئے اور سازش کرنے پر طعنے سُن لیے گئے تو امریکیوں نے فرصت اور اطمینان سے سانس لی اور سر اٹھا کر پاکستان کی طرف دیکھا، انہیں یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں دکھائی دیں۔ اگر وہ سازشی مشغولیت سے کچھ مہلت لے کر دیکھتے تو انہیں پتا چلتا کہ پاکستان میں حزب اختلاف کے ایک سر کردہ سیاست داں رانا ثنا اللہ پر ہیروئن کا مقدمہ ڈالا جارہا ہے، یہ انجلینا جولی اور سلمیٰ ہائیک جیسی کسی امریکی ہیروئن کا نہیں، اس ہیروئن کا مقدمہ تھا جس کی افغانستان میں پیداوار سے امریکیوں نے خوب پیدا کی، انہیں نظر آتا کہ کس طرح جاوید اقبال کی نیب ’سر سے پاﺅں تک‘ پُرجوش ہے کہ حزب مخالف کے راہ نماﺅں میں کوئی مالی عیب ڈھونڈ کر انھیں سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جائے۔ انہیں دکھائی دیتا کہ کس طرح مطیع اللہ، اسد طور، انصار عباسی اور کئی دیگر صحافیوں کی صحافت کو آفت سمجھ کر انہیں سزا دی جارہی ہے۔ ان کے علم میں اعظم سواتی صاحب کے حکم پر اس غریب گھرانے پر گزرنے والی قیامت کا حال ہوتا جس کی گائے اعظم صاحب کے فارم ہاﺅس کے مقدس احاطے میں منہ مارنے کا جرمِ عظیم کربیٹھی تھی۔ لاپتا ہونے والے افراد، منہ پر ہاتھ پھیر کر مخالفین کو لگائی جانے والی تڑیاں، گم شدہ لوگوں کی ملنے والی لاشیں، کوئی ایک واقعہ کوئی ایک سانحہ تو انہیں چونکنے اور کچھ کہنے پر مجبور کرتا۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی عمران خان کی حکومت کے خلاف سازش میں کتنے منہمک تھے۔ سازش سے نوازش تک کے اس پورے منظر نامے پر نظر دوڑاتے ہوئے اگر آپ یہ سوال اٹھائیں کہ یہ امریکی اور ان کے مختلف النوع ’زاد‘ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں، بھارت کے ہاتھوں کشمیریوں اور مودی سرکار کی جانب سے بھارتی مسلمانوں پر کھلے مظالم پر کیوں خاموش ہیں؟ تو یہ آپ کی سوچ کی لغزش ہوگی، بس یہ سمجھ لیں کہ بے نیازی اور ہائے میرا ’بے بی نیازی‘ کے اس معاملے میں تضاد یوں ہی نہیں۔ بات بس اتنی سی ہے کہ امریکی بڑے ’انصاف پسند‘ ہیں اور تبدیلی کے بے حد شوقین۔ ان کی تبدیلی نوازی کا اندازہ افغانستان عراق، لیبیا میں ہونے والے بدلاﺅ سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا امریکی پاکستان میں ’انصاف‘ اور ’تبدیلی‘ کے حق میں آواز اٹھائیں تو حیرت کیسی؟ اسرائیل اور بھارت فلسطینی سرزمین پر اور کشمیر میں پوری آبادی بدل دینے کے لیے سرگرم ہیں اور ’انصاف‘ نہ بھی کریں تو فلسطینیوں، کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کو ’صاف‘ کرنے میں تو کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہیں نا، اب اس ’صاف‘ میں چھوٹا سا ’ان‘ نہیں تو کیا ہوا، صفائی مکمل ہونے کے بعد یہ بھی ”IN“ ہوجائے گا۔ پھر پاکستان میں ’نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں‘ کا اچھوتا بیانیہ سامنے آنے کے بعد امریکی کیوں چاہیں گے کہ ’عالم اسلام کا لیڈر‘ انہیں کل کلاں جانور قرار دے ڈالے، ایسا ہوا تو تاریخ میں اس عظیم طاقت کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔

یہ حقیقت بھی سمجھ لیں کہ امریکیوں کے یہ بیانات ’بیانات‘ ہرگز بیرونی مداخلت نہیں Absolutely Not اگر یہ غیر ملکی مداخلت ہوتی تو ’کیا ہم کوئی غلام ہیں‘ جو اس پر خاموش بلکہ خوش ہوتے؟ ہم تو امریکیوں کی احتجاجی چٹھیاں اسی طرح لہرا لہرا کر احتجاج کر رہے ہوتے جیسے کچھ عرصہ قبل ہماری فضا میں ایک سائفر لہرایا تھا۔ اسے غیر ملکی مداخلت اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ یہ آوازیں اس ملک سے اٹھ رہی ہیں جس کے کئی شہری کچھ عرصہ قبل تک ہماری کابینہ کا حصہ اور حکومتی معاملات میں پوری طرح دخیل تھے۔

تعجب ہے کہ ان حضرات کے ہوتے ہوئے کسی لابنگ فرم کی ضرورت کیوں پڑی، یہ لوگ واشنگٹن جاکر بس اتنا کہہ دیتے کہ ’امریکا انکل، امریکا انکل! یہ امپورٹڈ حکم ران ہمیں آپ سے آزادی کی جنگ نہیں لڑنے دے رہے‘ تب بھی یہ اصول پسند امریکی یوں ہی پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا واویلا کر رہے ہوتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp