سانحہ جعفر ایکسپریس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کے لیے کوئٹہ پہنچ چُکے ہیں، تو کیا اس بہت بڑے سانحے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان دوبارہ سے ضربِ عضب طرز کا کوئی فوجی آپریشن کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:جعفر ایکسپریس حملہ، ٹرین ڈرائیور نے حملے کے وقت کیا دیکھا، آنکھوں دیکھا حال بتا دیا
دہشتگردانہ کارروائی کو افغانستان سے ماسٹر مائنڈ کیا گیا
پاکستان آرمی نے جعفر ایکسپریس ریسکیو آپریشن کامیابی سے مکمل کر لیا۔ آج جب ترجمان دفترِخارجہ شفقت علی خان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا اس بہت بڑی دہشتگردانہ کارروائی کے ڈانڈے بیرونِ ملک ملتے ہیں تو پاکستان اس حوالے سے کیا اقدامات کرنے جا رہا ہے؟ جس کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ اس دہشتگردانہ کارروائی کو افغانستان سے ماسٹر مائنڈ کیا گیا۔ ابھی ریسکیو آپریشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، افغانستان کے ساتھ ابھی معاملہ سفارتی سطح پر نہیں اٹھایا۔ ہم مرحلہ وار آگے بڑھیں گے۔
افغانستان سے کالز ٹریس کی گئی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس شواہد ہیں کہ افغانستان سے کالز ٹریس کی گئی ہیں۔ ان کے ساتھ سفارتی چینل کھلے ہیں، بات چیت چلتی رہتی ہے اور ماضی میں بھی افغان عبوری حکومت کے ساتھ اس طرح شواہد کا اشتراک کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:جعفر ایکسپریس حملہ: بھارت ماضی میں ایسے واقعات میں شریک رہا ہے، دفتر خارجہ
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لئے پاکستان کی کثیر الجہتی پالیسی ہے۔
جنرل خالد نعیم لودھی
لیفٹینٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ ضربِ عضب طرز کا ایک اور فوجی آپریشن کیا جائے گا۔ بلکہ آج وزیراعظم، آرمی چیف اور دیگر زعماء وہاں سارے اسٹیک ہولڈرز سے بات کریں گے۔ ہاں جن لوگوں نے بندوقیں اُٹھائی ہیں اُن سے بات چیت تو نہیں کی جا سکتی۔ ناراض بلوچ جو کہ سیاست کے میدان میں ہیں جیسا کہ ڈاکٹر عبدالمالک اور اختر مینگل، اِن جیسے لوگوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
جینوئن لیڈرشپ کو آگے لایا جائے
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ جینوئن لیڈرشپ کو آگے لایا جائے، اُن کو مین سٹریم میں لایا جائے۔ لیکن آج کے دورے میں آرمی چیف یہ ضرور پوچھیں گے کہ جن جن کی ذمے داری تھی اُنہوں نے اپنی اپنی ذمے داری پوری کیوں نہیں کی۔
سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا
جنرل خالد نعیم لودھی نے کہا کہ اس مسئلے کا حل لوہار کی طرح طاقت سے ہتھوڑا مارنے میں نہیں بلکہ سنار کی طرح سے باریک حل ہے۔ اور اس حل کی کئی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور فوجی جہتیں ہیں۔ فوج کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور باقی تمام کو بھی اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا ہو گا۔
برگیڈئیر آصف ہارون
برگیڈئیر آصف ہارون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن 100 فیصد لانچ کیا جائے گا۔ ضربِ عضب تو نہیں لیکن عزمِ استحکام لانچ ہونا چاہیے، خاص طور پر جب گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کہہ دیا کہ اب یہ ایک ڈفرنٹ بال گیم ہے۔
کارروائیوں کا آغاز ہو چُکا
برگیڈئیر آصف ہارون نے کہا کہ اُن کی اطلاعات کے مطابق اِس وقت کارروائیوں کا آغاز ہو بھی چُکا ہے اور عزم استحکام اب تک لانچ ہو جانا چاہیے تھا جو نہیں ہوا، کیونکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان اِس کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن اب بی ایل اے کو کرش کرنے کے لیے اس طرح کا آپریشن ضروری ہے اور علاقائی ممالک اور امریکا کو اعتماد میں لے کر دوسرے ممالک میں کارروائیاں بھی کی جائیں گی۔
اقوام متحدہ کے لیے کیس تیار
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے لیے پاکستان نے ایک کیس بھی تیار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہمسایہ ملک پاکستان میں دہشتگردی کا مرتکب ہے۔