بلتستان میں یبگو حکمرانوں کے مٹتے آثار کی کہانی

جمعرات 27 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلتستان کے مشہور حکمران خاندانوں یبگو، مقپون اور اماچہ میں سے اول الذکر نام موجودہ ضلع گانچھے کا حکمران خاندان ہے۔ اس خاندان کی اولاد ضلع گانچھے کے علاوہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے لداخ ترتوک میں بھی ہے۔ پہلے بلتستان میں مختلف چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں ہوا کرتی تھیں جن میں یبگو سلطنت بھی شامل تھی۔ یہ سلطنت کریس سے لے کر نوبراہ چھوربٹ، سیاچن سلترو کندوس، اور ہوشے وغیرہ پر مشتمل تھی۔ ایک بھارتی اخبار کے مطابق یبگو خاندان کے تعداد اس وقت کم و بیش 300 کے قریب ہے۔

تاہم ان خاندانوں نے اپنے عہدِ رفتہ کے نشانات کو بچانے کے لیے سرے سے کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے اکثر  مقامات پر ان کے نقوش مٹ چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ مٹنے کے قریب ہیں۔

یبگو خاندان کے آثار میں سے ایک ’کھرمنگ کھر یا سترن پوکھر‘ ہے جو ضلع گانچھے کے کم مشہور مگر انتہائی اہم مقام ہلدی اور مچلو کے درمیان ایک جزیرہ نما پہاڑی ٹیلے پر واقع ہے۔

ایک بڑے سے پتھر پر ’ہلٹانوس‘ یعنی (ہاؤن / کھرل / لنگری یا اوکھلی) کے آثار اب تک موجود ہیں۔

جب میں اس مقام کودیکھنے گیا تو اوپر تک جانے کے لیے کوئی باضابطہ راستہ نہ ہونے کے سبب خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں ہمیں گمان ہوا کہ کہیں مقامی لوگوں نے اس مقام سے متعلق کہانی نہ گھڑ لی ہو یا یہ محض افسانوی داستان ہے جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔

تاہم جب پہاڑی ٹیلے کے اوپر پہنچا تو پرانے آثار دیکھ کر دکھ اور حیرت نے مجھے گھیر لیا۔ دُکھ اس بات کا تھا کہ اس خوبصورت جگہ تک رسائی کے لیے کسی نے کوئی کوشش نہیں کی، صرف یہی نہیں بلکہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے مقامی و غیر مقامی ادارے حتیٰ کہ بین الاقوامی ادارے بھی نہیں آئے۔

اس جگہ کی خوبصورتی دیکھنے کے بعد میں نے خپلو سے تعلق رکھنے والے آثار قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر محمد عارف سے رابطہ کیا تو میری حیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ انہوں نے بھی ابھی تک یہ جگہ نہیں دیکھی۔  تاہم مجھے ان سے ایک سراغ ملا کہ بیگ منٹھل نے آکر اس مقام پر قلعہ بنوایا تھا اور یہاں موجودہ گلشن کبیر جس کا قدیم نام پھڑاوا ہے کے راجا غوری تھم کو شکست دی تھی۔ اس کے بعد میں نے انٹرنیٹ پر بیگ منٹھل کے حوالے سے مواد ڈھونڈنے کی کوشش تو انکشاف ہوا کہ بیگ منٹھل نے850ء میں  یارقند سے براستہ کندوس آکر ہلدی کو اپنا پایہ تخت بنایا تھا۔ اس اہم تاریخی مقام کی خستہ حالی دیکھ کر اس کی  وجوہ جاننے کے لیے ہم نے یبگو خاندان کے ایک چشم و چراغ راجا ہدایت علی خان سلینگ سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر کچھ بنیادی باتیں جاننے کے کوشش کی۔

تاریخ کی کتابوں میں اس کھرمنگ کھر یا سترن پوکھر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بیگ منٹھل نے اس کے بعد سلینگ میں قلعہ تعمیر کر کے اس کو دوسرا پایہ تخت بنایا تھا۔ شاہراہ سیاچن کے بالکل قریب ہونے کے باوجود یہ مقام اب بھی ماہرین آثار قدیمہ کی نظروں سے اوجھل ہے، جس کی بنیادی وجہ اس جگہ تک ٹرانسپورٹ کی رسائی نہ ہونا معلوم ہوتی ہے۔ فی الوقت ہلدی اور مچلو کے درمیان زیر تعمیر شفیق پل کی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔

بیگ منٹھل نے850ء میں یارقند سے براستہ کندوس آکر ہلدی کو اپنا پایۂ تخت بنایا تھا۔

راجا ہدایت علی خان کا کہنا ہے کہ ہلدی گاؤں کی طرف بہترین راستہ بنایا ہوا تھا جو بعد میں لوگوں کی بے نَوَجُّہی کے سبب خراب ہوگیا۔ اس پہاڑی ٹیلے پر جہاں کبھی قلعہ واقع تھا، ایک بڑے سے پتھر پر ’ہلٹانوس‘ یعنی (ہاؤن / کھرل / لنگری یا اوکھلی(  کے آثار اب تک موجود ہیں۔

مؤرخین کے مطابق بیگ منٹھل نے اس جگہ کو سرمائی جب کہ سلینگ قلعے کو موسم بہار کا صدر مقام قرار دیا  تھا۔ مقامی افراد کے مطابق پہاں پر پہلے پسائی کا پتھر بھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاہ چھو ٹے چھوٹے گڑھوں کے آثار بھی ہیں۔ اس بارے میں یہی خیال گزرتا ہے کہ ان گڑھوں کو اس وقت غلہ جات رکھنے اور دشمن کی طرف سے حملہ ہونے کی صورت ہتھیار اور قیمتی اشیاء چھپانے کے لیے بنوایا ہو گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ جس طرح چند تھگس سے قیمتی جواہرات برآمد ہو رہے ہیں اس طرح ان گڑھوں کی بھی کھدائی ہو جائے تو ممکن ہے کہ یہاں سے بھی کوئی قیمتی خزانہ برآمد ہو جائے۔

راجا ہدایت علی خان کے بقول اس کا اصل نام ’سترن پوکھر‘ ہی ہے۔ ان کے مطابق بلتی زبان میں سترن ’کیڑے‘ کو اور پوکھر ’قلعہ‘ کو کہا جاتا ہے، چونکہ اس وقت کے راجا نے وہاں پر ریشم کے کیڑے پال رکھے تھے اس لیے یہ مقام سترنگ پوکھر یعنی ’ریشمی کیڑے والا قلعہ‘ کے نام سے مشہور ہوگئی۔

راجا ہدایت اس مقام کے دوسرے نام ’ کھرمنگ کھر‘ کی وجہ تسمیہ سے متعلق کہتے ہیں کہ راجا کی بیوی دبلت خاتون ’کھرمنگ‘ سے بیاہ کی لائی گئی، جن کا اس قلعہ کی تعمیر میں کردار تھا اس لیے اس کو ’کھرمنگ کھر‘ کہا جاتا ہے۔

تاریخی قلعہ’کھرمنگ کھر‘ کے نام سے معر وف ہے۔

یبگو سلطنت کا پہلی نشانی کھرمنگ کھر /سترنگ پو کھر کی تاریخی اہمیت:

یبگو خاندان کی حکومت کے ابتدا ضلع گانچھے کے کم مشہور مگر انتہائی اہم مقام ’ہلدی‘ سے ہوئی۔ تاریخی امور میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے مطابق بیگ منٹھل نے850ء میں  یارقند سے براستہ کندوس آکر ہلدی کو اپنا پایۂ تخت بنایا تھا، اس کے بعد اس نے موجودہ گلشن کبیر جس کا قدیمی نام پھڑوا ہے کے راجا غوری تھم سے جنگ کر کے پورے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر دیا۔

روایت یے کہ یہیں سے یبگو سلطنت کی بنیاد پڑی۔ ہلدی کو پایۂ تخت بنانے کے بعد اس نے دریائے سلترو اور دریائے ہوشے کے سنگم پر موجود خوبصورت پہاڑی پر اپنا قلعہ بنوایا جو کہ ’کھرمنگ کھر‘ کے نام سے معر وف ہے۔

الحاج مولوی حشمت اللہ خان لکھنؤی کی تاریخ جموں میں بیگ منٹھل کے زمانے کے بارے میں دو مقامات میں پر دو مختلف تاریخ درج ہے۔ ابتدا میں راجگان خپلو جسے انہوں نے کھپلو لکھا ہے، کی فہرست میں بیگ منٹھل کا زمانہ 850ء تحریر ہے جب کہ دوسری جگہ تفصیل درج کرتے ہوئے 1850ء تحریر ہوا ہے۔ جو بادی النظر میں کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ دیگر بہت سے محقیقن نے 850ء کی تاریخ پر اتفاق کیا ہے۔ جب کہ تاریخ بلتستان کے مؤلف محمد یوسف حسین آبادی  نے اس تاریخ سے اختلاف کرتے ہوئے 753ء تحریر کیا ہے۔

راجا ہدایت علی خان کے گھر آویزاں چارٹ

قلعے کی ملکیت:

کھرمنگ کھر یا سترنگ پوکھر اگرچہ خانگی تقسیم کے اعتبار سے راجا ہدایت علی خان کے بھائی کے حصہ میں آیا ہے (شنید ہے کہ ان کے بھائی نے ہلدی میں اپنی پوری جائداد کو ایک کاروباری شخص کو فروخت کر دیا ہے) تاہم اس حوالے سے راجا ہدایت علی خان کا کہنا ہے کہ قلعے یا تاریخی مقامات کو کسی طور فروخت نہیں کیا جا سکتا۔

لفظ یبگو کا پس منظر اور حکومت کا آغاز:

راجا ہدایت علی خان کے مطابق یبگو یا یبغو تھا جو کہ تخارستان کے حکمران کا لقب تھا۔ انہوں نے اپنے گھر پر ایک مختصر سا کتبہ نما چارٹ آویزاں کیا ہوا ہے جس پر ترک قبیلے غز  یا غد کے حکمران کی تاریخ درج ہے۔ اس کتبے میں خاندان کے دو شاخوں یبگو سلجوق اور یبگو اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے۔

مولوی حشمت اللہ خان لکھنؤی نے  پشاور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مظہر الدین کی کتاب ’اسلامک سوسائٹی اینڈ مسلم اسٹیٹس‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یبگو سلجوق روم کی طرف جب کہ یبگو اسرائیل نے مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے کاشغر تک کا علاقہ فتح کیا۔ الحاج مولوی حشمت اللہ خان لکھنوی لکھتے ہیں کہ کھپلو(خپلو) کا یبگو خاندان غالباً یبگو اسرائیل کی شاخ ہے کیونکہ خپلو سلسلہ کوہستان قراقرم کے عقب میں کاشغر سے متصل ہے۔ اس کے بعد آخری جملہ کچھ مبہم ہے وہ لکھتے ہیں کہ کاشغر سے براہ روی کھپلو پر حملہ آوار ہوا۔

راجا ہدایت علی خان کے گھر آویزاں چارٹ کے مطابق یبگو اسرائیل نے وہاں سے سیاچن گلیشیئر عبور کر کے وادی خپلو کے علاقے سلترو گوما میں پڑاؤ ڈالا،  پھر وہاں مختلف مقامات پر قبضہ کرنا شروع کیا ہے، اس کے بعد تلس اور ہلدی میں قلعے تعمیر کیے جو عام طور پر کھرمنگ کھر سے موسوم ہے۔

راجا ہدایت علی خان

اس دوران بیگ منٹھل نے خپلو کے پہلے راجا غوری تھم کے ساتھ جنگ لڑی اور راجا غوری تھم کو قتل کرنے کے بعد پورے علاقے کا حاکم بن گیا۔ یہی دور یبگو خان کی عروج کا زمانہ معلوم ہوتا ہے۔اس کے بعد کے ادوار پر تاریخ میں زیادہ تر خاموشی دکھائی دیتی ہے۔

راجا ہدایت علی خان نے بیگ منٹھل کو اپنا مورث اعلیٰ بتایا ہے۔ راجا ہدایت کے مطابق بیگ منٹھل کی یاد میں جب کہ تاریخ جموں کے مطابق غوری تھم کے قتل کی یاد میں ہر سال پھڑوا (موجودہ گلشن کبیر) میں 21 فروری کو بنام چھرگا تھرپ سالانہ  میلہ منعقد ہوتا تھا۔

تاریخ جموں کے مؤلف نے الحاج مولوی حشمت اللہ خان لکھنؤی کا بیان ہے کہ انہوں نے بھی تاریخ جموں لکھتے ہوئے خپلو کے راجا فتح علی خان سے بھی یہی معلومات لی تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ راجا ہدایت علی خان کے گھر پہ آویزاں اس کتبہ نما چارٹ اور تاریخ جموں کے حوالوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

یبگو خاندان کا پہلا مسلمان راجا:

بیگ منٹھل اور ان کی دیگر اولادوں کے مذہب کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا تو مشکل ہے تاہم اکثر مؤرخین کے نزدیک وہ بدھ مت کے پیروکار تھے۔ مگر ان تحقیقات کو حتمی نہیں مانا جا سکتا کیونکہ سابق رکن گلگت بلتستان اسمبلی اور بلتستان ایسوی ایشن اف ایڈونچر ٹور آپریٹر کے بانی حاجی محمد اقبال کے بقول خپلو کی تاریخی مسجد چقچن آتش پرست ، بدھ مت اور اسلامی تہذیبوں کا حسین امتزاج ہے۔

حاجی اقبال کے بقول پہلے یہ مقام آتشکدہ تھا پھر مقامی لوگوں نے بدھ مت کا مذہب اختیار کیا تو یہ بدھ مت کے پیروکاروں کی عبادت گاہ بن گئی۔ اس کے بعد جب اسلام آیا اور مقامی لوگ مسلمان ہوئے تو یہ جگہ مسجد بن گئی۔  ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا یہ معلومات ان تک سینہ در سینہ منتقل ہوئی ہیں۔

اس حوالے سے بھی  مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہاں اسلام کی آمد کے وقت کس راجہ کی حکومت تھی۔ یوسف حسین آبادی نے مقیم خان کو پہلا مسلمان راجہ بتایا ہے۔ انہوں نے نجم الدین ثاقب کی منظور تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے 783 ہجری یا 1381 عیسوی بتایا ہے جبکہ تاریخِ جموں میں شاہ اعظم کو پہلا مسلمان راجہ بتایا گیا ہے۔ دونوں مؤلفین کے نزدیک شاہ اعظم کا زمانہ 1420ء سے 1450ء ہے۔ اگرچہ تاریخِ جموں میں اکثر مقامات پر تاریخ رشیدی کا حوالہ نظر آتا ہے مگر یہاں پر حوالہ مفقود ہے۔ تاہم غالب گمان یہی ہے کہ یہ معلومات بھی تاریخِ رشیدی سے لی گئی ہیں۔

قلعے یا تاریخی مقامات کو کسی طور فروخت نہیں کیا جا سکتا۔

یبگو خاندان کا زوال :

دنیا کی تاریخ میں ہر حکومت کے زوال کا نقطۂ آغاز اقتدار کی کشمکش ہے، یہی اصول ادہر بھی دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ جموں سے پتا چلتا ہے کہ یبگو خاندان میں کئی مرتبہ اقتدار کے لیے اختلاف ہوا تاہم درمیان کے کچھ راجاؤ ں نے متحدہ حکومت بھی قائم کی۔ تاہم بیگ منٹھل سے لیکر مقیم خان یا شاہ اعظم کے دور کے حالات پر تاریخ جموں اور تاریخِ بلتستان دونوں خاموش دیکھائی دیتی ہیں۔

اس علاقے میں یبگو خاندان کی حکومت میں کم و بیش 2000سال بتائی جاتی ہے، تقریباً 1750ء تک اس علاقے پر یبگو خاندان کی حکومت رہی، اس کے بعد بلتستان کے دیگر سلطنتوں کی طرح یبگو سلطنت بھی کشمیر کے حکمران ڈوگرہ مہاراجا کے زیر تسلط چلی گئی۔ یبگو حاتم خان اعظم کے بعد اقتدار کی جو کشمکش شروع ہوئی وہ آگے جا کر ڈوگرہ کے زیر تسلط پر منتج ہوئی۔

یبگو یحییٰ خان جن کا عہد حکومت 1710ء سے 1760ء ہے ان کے 3 بیٹوں دولت علی خان ، مہدی علی خان  اور محمد خان کے بعد ان کی اولاد میں اقتدار کے کشمکش شروع ہو گئی اس کشمکش میں مہدی علی خان نے لداخ کی راجا کی مدد سے صرف اقتدار ہی حاصل نہیں کیا بلکہ اپنے دونوں بھائیوں دولت علی خان اور محمد خان کو لداخ میں قید کروا دیا۔ اس دوران دولت کا خان کا بیٹا براستہ گانچھے نالہ کھرمنگ فرار گیا اور وہاں سے وہ اسکردو کے راجا احمد شاہ کے پاس پہنچ کر اس سے مدد کی درخواست کی، جسے احمد شاہ نے قبول کرتے ہوئے اپنے بھتیجے ابدال خان کی سرکردگی میں خپلو پر حملے کے لیے فوج بھیجی مگر اس کو نہ صرف مہدی خان کے ہاتھوں شکست ہوئی بلکہ وہ قید بھی ہو گیا۔

اسکردو کے راجا احمد شاہ نے ابدال خان کو چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کی یہاں تک ا س کے وزن کے برابر سونے کی بھی پیشکش ہوئی مگر مہدی خان نے مداخلت کا جواز ختم کرنے کرنے کے لیے اس کو بے دردی سے قتل کروا دیا ۔

تاریخ جموں کے مطابق ابدال خا ن کا قتل دماغ میں میخ ٹھونک کر کیا گیا۔  اس کے بعد احمد شاہ نے ابدال خان کا بدلہ لینے کے لیے خپلو پر فوج کشی کی۔ اس دفعہ مہدی علی خان شکست کھا کر راجا احمد شاہ کی قید میں پہنچ گیا یہاں تک کہ مہدی علی خان کا انتقال اسی قید میں ہوا۔ اس کے بعد مہدی علی خان کے بیٹے محمد علی خان ثانی نے راجا اسکردو احمد شاہ کا علاقہ واپس کی کرنے کی درخواست کی جسے انہوں نے قبول کرنے بجائے اس کو ہی نظر بندکر دیا اور خپلو کو اسکردو کے ساتھ ضم کرتے ہوئے یول سترونگ کریم نامی شخص کو خپلو کا گورنر مقرر کیا۔ اس طرح خپلو میں راجا اسکردو احمد شاہ کی بالواسطہ حکومت قائم ہو گئی۔ تاریخ میں احمد شاہ کی حکومت کا دورانیہ 20سال یعنی 1820ء سے 1840ء پر محیط بتایا گیا ہے۔ اسی دوران کشمیر کے ڈوگرہ حکمران وزیر زور آور سنگھ نے بلتستان پر حملہ کر دیا۔

تاریخ میں وزیر زور آور سنگھ کے حملے کے وقت یبگو خاندان کا کردار وطن پرستی کے بجائے مصالحتی اور ابن الوقتی انتقامی جذبے سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اس کی وجہ یول سترونگ کریم کا ظلم بتایا گیا ہے۔ یول سترول کریم کی شکست کے بعد راجہ دولت علی خان کا کردار دوبارہ ابن الوقتی اور انتقامی خواہش دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ جموں میں درج ہے کہ زور آور سنگھ اور ڈوگرہ فوج لداخ میں مشکلات میں پھنس گئی تو بلتستان میں دوبارہ ڈوگرہ کے خلاف بغاوت ہو گئی یہاں تک کہ شگر کے راجا حیدر خان نے اپنا راج تمام ملک میں قائم کیا، اسی طرح دوسرے علاقوں کے راجا بھی اپنی اپنی جگہ پر خود مختاری کا دعویٰ کرنے لگے۔  جب بلتستان میں بغاوت اور خودمختاری کے دعویٰ کے یہ خبر جموں پہنچی تو ڈوگرہ سرکار نے وزیر لکھپت رائے کو بغاوت کو کچلنے پر مامور کیا۔

لکھپت رائے نے اسکردو پہنچ کر قلعہ کھرفوچو کو فتح کر کے اسکردو اور شگر کو دوبارہ ڈوگرہ سرکار کے ماتحت کر دیا۔ اس دوران اسکردو کا راجا حیدر خان مع اسی کسان لے تھلے کے راستے سے یارقند فرار ہونے کے لیے سلترو روانہ ہوا، تاہم جب راجا دولت علی خان کو معلوم ہوا تو اس نے ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اسکردو اور شگر کے راجاؤں کے ساتھ مل لڑنے کے بجائے اسے اپنے لیے غیبی تائید سمجھ کر انہیں گرفتار کرلیا اور انہیں لے کر اسکردو میں  وزیر لکھپت رائے کی  خدمت میں حاضر ہوا۔

وزیر لکھپت کو دولت علی خان کی یہ ادا پسند آ ئی اور اس نے اس کی جاگیر بحال کر دی۔ تاریخ جموں میں واقعات کا دورانیہ  1840ء سے 1860ء درج ہے۔ تاریخ بلتستان کے مطابق اس دوران دولت علی خان نوبراہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا جب کہ وہ خپلو کی حکومت کا اصلی حکمران ہونے کا دعویدار تھا۔

بلتستان کے معروف ادیب محمد حسن حسرت کے بقول اس وقت پورے بلتستا ن پر اسکردو کے راجا احمد شاہ کی حکومت تھی۔ وزیر لکھپت نے دولت علی خان کے علاوہ کریس راجا خرم خان کی جاگیریں بھی حسب دستور بحال رکھیں۔ اس طرح تاریخ نے خپلو کے دولت علی خان، کریس کے خرم خان، کھرمنگ علی شیر خان طولتی کے احمد شاہ اور اسکردو کے محمد شاہ کو ڈوگرہ سرکار کے بہتریں سہولت کاروں کی فہرست میں رکھ دیا ہے۔ تاہم یوسف حسین آبادی نے اس کو ناکام جدوجہدِ آزادی کے ادوار میں شمار کیا ہے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp