گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کی تحصیل ڈیرہ اللہ یار کے نواحی علاقے جاگیر سے مقامی تاجر کے بیٹے فرقان سومرو کی بازیابی کے لیے شروع کیا جانے والا سرچ آپریشن تاحال جاری ہے۔ سر چ آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کی تلاشی کا سلسلہ جاری ہے جبکہ علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری بھی تعینات ہے۔
پولیس کے مطابق گزشتہ شب 3مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جنہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر کے تفتیش شروع کر دی گئی جبکہ پولیس تھانہ ڈیرہ اللہ یار کے ایس ایچ او طالب حسین لاشاری کی مدعیت میں سندھ کے تھانہ مولاداد میں مٹھو شاہ، صلاح عرف باگڑی، در محمد جکھرانی سمیت 15معلوم جبکہ 8نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں قتل، اقدام قتل، دہشتگردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔
گزشتہ روز مسلح افراد سے فائرنگ کے تبادلے میں انسپکٹر محمد طیب عمرانی سمیت 6اہلکار شہید ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔ شہید پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ سبی اور جعفرآباد پولیس لائیں میں ادا کر دی گئی تاہم ضروری کارروائی کے بعد شہید اہلکاروں کے جسد خاکی اہل خانہ کے سپرد کر دیے جائیں گے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے معاملے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ پولیس کی شہادتوں پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے جاری بیان میں جواب طلب کیا ہے کہ کیا پولیس پارٹی پوری تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ ڈاکوؤں سے مقابلے کے لیے گئی تھی؟ کیا کوئی سینئر پولیس افسر اس ایکشن کی نگرانی کر رہا تھا؟ اور کیا ڈاکوؤں کے خلاف ریڈ کے لیے سندھ پولیس کے ساتھ پہلے سے کوآرڈینیشن کی گئی تھی؟ وزیراعلیٰ نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کو معاملے کی انکوائری کرنے کی ہدایت کی ہے۔
نصیر آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی نظام جتوئی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 3روز قبل ڈیرہ اللہ یار سے معروف تاجر و مل مالک کے بیٹے فرقان سومرو کو ڈاکوؤں نے اسلحے کے زور پر اغواء کیا اور جاگیر کے علاقے میں لے گئے تھے، جس کے بعد پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کا تعاقب کیا گیا۔ اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک پولیس آفیسر سمیت 6 اہلکار بھی شہید ہوئے۔
نظام جتوئی کے مطابق اس سے قبل بھی ڈاکو راہ زنی، اغواء برائے تعاون سمیت دیگر جرائم میں ملوث رہے ہیں۔