جب فوجی عدالت نے ججوں کو طلب کیا

جمعہ 28 اپریل 2023
author image

بلال غوری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دوسرے فوجی حکمران جنرل یحیٰ خان کے دورِ حکومت کی بات ہے۔ جنرل آغا محمد یحٰیی خان نے مارشل لا کی دھاک بٹھانے اور دہشت دکھانے کے لیے عدلیہ کو مشق ستم بنانے کا فیصلہ کیا۔

8 جولائی 1969 کو ایک حکم نامے کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کا احتساب کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ ’ججز ڈیکلریشن آف ایسٹس آرڈر’ کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کو پابند کیا گیا کہ وہ جج بننے سے لے کر آج تک کے اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروائیں۔

اگرچہ 1962 کا آئین معطل ہوچکا تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل موجود نہ تھی مگر ججوں کے اثاثہ جات کا جائزہ لے کر ان کا احتساب کرنے کے لیے مارشل لا آرڈر کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل تشکیل دی گئی اور اسے کہا گیا کہ تمام ججوں کے اثاثہ جات کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ دے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کی روشنی میں ہائیکورٹ کے 2 جج صاحبان جسٹس فضل غنی خان اور جسٹس شوکت علی کے خلاف ریفرنس دائر کیے گئے۔ فضل غنی خان نے تو ریفرنس کا سامنا کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی جبکہ جسٹس شوکت علی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے فارغ کردیا گیا۔ تاہم جسٹس شوکت علی کا حقیقی جرم یہ تھا کہ انہوں نے ملک میر حسن کیس میں اعلیٰ عدالتوں کا دائرہ کار محدود ہونے کے تاثر کو رد کردیا تھا۔

ملک میر حسن سمیت بعض سیاسی شخصیات کو راولپنڈی کی خصوصی عدالت کی طرف سے طلب کیا گیا تو انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں رِٹ دائر کرکے اس کارروائی کو چیلنج کیا۔ ابھی ایک رکنی بنچ سماعت کر رہا تھا کہ ان کے مقدمات فوجی عدالت کو منتقل کردیے گئے جس پر چیف جسٹس سے لارجر بنچ بنانے کی استدعا کی گئی۔

لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بنچ نے 30 جون 1969 کو یہ تاریخی فیصلہ سنایا کہ عدالتیں معمول کے مطابق کام کر رہی ہیں تو اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ مارشل لا کے نفاذ کے بعد بھی ان کا دائرہ سماعت برقرار ہے۔ جس دن یہ فیصلہ آیا اسی روز 30 جون 1969 کومارشل لا حکام نے Jurisdiction of the courts(Removal of doubts) Order کے نام سے ایک نیا فرمان جاری کیا جس میں وضاحت کی گئی کہ کسی مارشل لا حکم کو سول عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

جنرل یحیٰ خان کی طرف سے جاری کیے گئے اس مارشل لا فرمان سے شہہ پاکر ملتان کے سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا نے ملکی تاریخ کا انوکھا حکم جاری کرتے ہوئے ہائیکورٹ کے ججوں کو طلبی کا نوٹس جاری کردیا۔

جنرل مٹھا اپنی کتاب ‘ممبئی سے جی ایچ کیو تک’ میں تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘لاہور ہائیکورٹ کے ججوں نے فوجی عدالتوں کے صدور(Presidents) کو طلب کرنا شروع کردیا۔ جو بریگیڈیئر صاحب ان علاقوں کے انچارج تھے، وہ ایک روز میرے پاس آئے اور کہا کہ جن افسران کوعدالتِ عالیہ نے طلب کیا ہے وہ خاصے پریشان ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایسا کرکے ملٹری کورٹس کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ میں نے اپنے قانونی مشیر سے مشورہ کیا کہ اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے۔ اس نے مشورہ دیا کہ جواباً عدالتِ عالیہ کے ان ججوں کو ملٹری کورٹس میں طلب کرنا چاہیے۔ میں نے قانونی مشیر کے کہنے پر فوری طور پر ایکشن لے لیا‘۔

اس واقعے کا پس منظر یہ تھا کہ کسی خاتون نے حشمت علی نامی شخص کی شکایت کی کہ اس نے 4 ہزار روپے قرض لینے کے بعد واپس نہیں کیا۔ فوجی عدالت کے سربراہ نے حشمت نامی شخص کو طلب کیا تو اس نے کہا کہ یہ خاتون جھوٹی ہے۔ میں پیسے واپس کرچکا ہوں اور رسید بھی موجود ہے۔ کرنل نے رسید پیش کرنے کو کہا تو اس شخص نے موقع پاکر لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کردی۔ جسٹس شمیم قادری اور جسٹس نسیم حسن شاہ پر مشتمل بنچ نے سماعت کرتے ہوئے متعلقہ فوجی عدالت کے سربراہ کرنل صاحب سے وضاحت طلب کی کہ یہ معاملہ کس طرح آپ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اس جواب طلبی کے ردِعمل میں ان دونوں جج صاحبان کو فوجی عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ جنرل مٹھا کی طرف سے کی گئی اس کارروائی کا ذکر پنجاب کے ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور گورنر لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان نے اپنی کتاب Back to the pavillian میں بھی کیا ہے۔

جسٹس نسیم حسن شاہ اپنی نگرانی میں مرتب کروائی گئی کتاب ‘عہد ساز مصنف’ میں اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘جسٹس شمیم حسین قادری نے مجھے وہ خط دکھایا جو سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر میجر جنرل ابوبکر مٹھا کی جانب سے جاری ہوا تھا۔

اس میں تحریر تھا کہ 2، 3 روز کے اندر آپ اور جسٹس نسیم حسن شاہ ہمارے سامنے پیش ہوکر بتائیں کہ کیوں نہ آپ دونوں حضرات کو مارشل لا کی توہین کے سلسلے میں سزا دی جائے۔ جسٹس شمیم حسین قادری بہت متفکر تھے۔ وہ مجھے تسلی دے رہے تھے مگر میں نے کہا،جسٹس قادری! آپ میرے ساتھ ہی ہوں گے نا؟ انہوں نے فرمایا، ہاں میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔ میرا جواب تھا، جب ہم دونوں ساتھ ہوں گے تو خوب گزرے گی، ڈر کاہے کا؟‘

اس وقت تو دونوں جج صاحبان متفکر تھے اس لیے ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل عتیق الرحمان کی مداخلت پر معاملہ رفع دفع ہوگیا مگر جب مارشل لا دور اختتام پذیر ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں یہ گڑا مردہ پھر سے زندہ ہوگیا۔ جنرل ابوبکر عثمان مٹھا کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کرنے کے لیے فل بنچ تشکیل دیا گیا جس نے جنرل مٹھا کو طلب کرکے غیر مشروط طور پر معافی مانگنے کے باوجود عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا سنا دی۔

ہماری تاریخ اداروں کے درمیان تصادم پر مبنی ایسے واقعات سے بھرپور ہے۔ ایک بار پھر یوں محسوس ہورہا ہے جیسے تاریخ خود کو دہرانے جارہی ہے۔ اس بار محاذ آرائی مارشل لا اور عدلیہ کے مابین نہیں بلکہ مقننہ اور عدلیہ ایک دوسرے کے مدِمقابل ہیں۔اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے جس طرح کے فیصلے اور احکامات صادر کیے جارہے ہیں، انہیں عدالتی مارشل لا کا نام دیا جارہا ہے۔

ارکانِ پارلیمنٹ کو گلہ ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نہ صرف انتظامیہ بلکہ پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی طرف سے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کو باضابطہ طور پر ایک مراسلہ تحریر کرکے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اتحادی جماعتوں کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کو توہینِ پارلیمنٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی میں طلب کیا جائے گا۔

دوسری طرف یہ افواہیں اور سرگوشیاں بھی زیرِ گردش ہیں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے انتہائی قدم اُٹھاتے ہوئے وزیرِاعظم شہباز شریف کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا جارہا ہے۔ اگرچہ ماضی میں کئی بار وزرائے اعظم کو توہینِ عدالت کے الزامات میں طلب کیا جاچکا ہے۔ وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی اور آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم سردار تنویر الیاس توہینِ عدالت کی پاداش میں نااہل قرار دیے جاچکے ہیں مگر اس بار پارلیمنٹ سیسہ پلائی دیوار کی طرح سپریم کورٹ اور وزیرِاعظم کے درمیان حائل ہے۔

اعلیٰ عدالتیں تو وفاقی وزرا، وزرائے اعظم اور ارکانِ پارلیمنٹ کو طلب کرتی رہی ہیں لیکن اگر قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کی طرف سے چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو بلایا جاتا ہے تو یہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی اور فورم پر طلب کیے جانے کی دوسری مثال ہوگی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp