لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں

ہفتہ 29 اپریل 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

منتشر معاشرے اور اذیت پسند ماحول میں ہم حقائق سے شناسائی رکھنے اور قلم کے ذریعے بولنے والے لوگ ہی جانتے ہیں کہ ہم کس کرب سے دو چار ہیں اور ہمیں کیسی سفاک بے حسی کا سامنا ہے۔

ذہن میں روشنی اور ہاتھ میں قلم یقیناً اللہ تعالی کی شاندار نعمتوں میں سے ایک ہے۔ لیکن جب عملی طور پر آپ اس کا اظہار کرنے لگیں تو سچائی سے رشتہ جوڑ کر ایک لکھنے والا ہی جانتا ہے کہ اسے کس طرح کی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر خاص طور پر جب آپ کا تعلق صحافت کے شعبے سے ہو کیونکہ یہاں آپ سیاسی جماعتوں پر بھی تنقید کرتے ہیں، پارٹی رہنماؤں کو بھی ٹوکتے ہیں، حکومت سے بھی الجھتے ہیں، اس کی کارکردگی پر سوال بھی اٹھاتے ہیں، کرپشن اقرباء پروری اور مس مینجمنٹ پر بھی انگشت نمائی کرتے ہیں، جھوٹ کا پردہ چاک کرتے اور وعدے یاد دلاتے ہیں۔ عوامی احتجاج اور چیخ و پکار کو بھی حرف و لفظ فراہم کرتے اور شخصی کمزوریوں پر بھی  نگاہ رکھتے ہیں۔ تاہم اس سب کے درمیان سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیڈرز  اور  کارکنان آپ سے توقع رکھتے اور تقاضا کرتے ہیں کہ جب ہمارے حوالے سے بات کریں تو چین ہی چین لکھیں یا ’باقی یہاں پر خیر خیریت ہے‘ سے آگے نہ بڑھیں۔ ساتھ میں یہ تقاضا الگ سے ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی مخالفین کو نہ صرف بے ستر کر دیں بلکہ ان کی چمڑی بھی اُدھیڑتے رہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ’مثبت رپورٹنگ‘ کا حکم دینے والے الگ سے آپ کا تعاقب کر رہے ہوتے ہیں (یہ ایک طویل اور خونچکاں تاریخ ہے، گزشتہ کالموں میں اس پر مفصل بات کر چکے ہیں)۔

اگر آپ کا تعلق صحافت خصوصاً کالم نگاری کے شعبے سے ہے تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ جمہوری اقدار اور سسٹم پر گہری نگاہ رکھیں، سو جہاں بھی اور جو کوئی بھی جمہوری عمل سے روگردانی کرے یا اسے نقصان پہنچانے کا سبب بنے تو آپ کے قلم کا ساکت ہونا یا خاموش رہنا بجائے خود جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایک لکھنے والا ہی جانتا ہے کہ آمریتوں سے مسلسل بر سر پیکار ناتواں جمہوریت کے حامل ملک میں اس طرح کے سوال اٹھانا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک سچا لکھاری ہی جانتا ہے کہ صحافت کے تنے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے معمولی سی کوتاہی یا غفلت کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں، لیکن باہر بیٹھے ’تماش بین‘ آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہمارے تمام تر جذبات (خواہ وہ بے سر و پا ہی کیوں نہ ہوں) اپنے نام اور اپنے قلم کے ساتھ اسی طرح پیش کریں جیسا ہم سوچتے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائیں اور نتائج بھی خود ہی بھگتیں۔

اگر آپ ایک لکھاری ہیں تو انسانی اور بنیادی حقوق کے حوالے سے آپ کو حد درجہ حساس اور با خبر ہونا چاہیے، ساتھ ساتھ آپ معاشرے کو موٹیویٹ بھی کریں اور منفی عوامل پر تنقید سے بھی گریز نہ کریں، لیکن جب اس حوالے سے لکھیں تو معاشرے کا ایک با اثر طبقہ نہ صرف آپ کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے بلکہ باقاعدہ فون کر کے دھمکی آمیز لہجے میں ڈکٹیشن بھی دینے لگتا ہے۔

بحیثیت ایک لکھاری کبھی آپ لبرلز پر تنقید کریں تو ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے اور پھر آپ جاہل، پسماندہ، طالبان اور سہولت کار  ٹھہرتے ہیں (میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق سب سے زیادہ عدم برداشت اسی طبقے میں ہے) ۔

کبھی آپ کا قلم عسکریت پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف حق گوئی پر اُتر آئے تو خودکش حملے اور بچوں کے اغوا کی دھمکیوں کو معمول کی فون کال سمجھیں۔

گو کہ عمران خان کے پیرو کار تو بدتہذیبی کے ’ہنر‘ میں یکتا سمجھے جاتے ہیں  لیکن  کبھی دوسرے انقلابیوں سے  واسطہ پڑے تو پی ٹی آئی کے کارکنان ان کے سامنے معصوم نظر آتے ہیں۔ تاہم اس گالم گلوچ کی سیاست کے اصل بانی عمران خان اور ان کی پارٹی ہے۔

یہ ہم لکھنے والوں کی مختصر روداد ہے جنہیں  عام لوگ  مشہور آدمی سمجھ کر رشک کرنے  لگتے ہیں، لیکن انہیں کیا معلوم کہ لکھنے والے کس دُہری اذیت میں گرفتار ہیں، کیونکہ نہ لکھیں تو اپنی ذمہ داریوں سے ایک مجرمانہ غفلت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں اور اگر لکھیں تو قدم قدم پر ان عذابوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اس بد نصیب ملک کے قیام کے ساتھ ہی سچائی اور ایمانداری کے راستوں میں بو دیے  گئے تھے اور اب ان راستوں سے گزرنا محال ہو چکا ہے۔ البتہ اس زوال پذیر معاشرے میں کذب و ریا کا لبادہ اوڑھنے والوں کے پروپیگنڈے کو ہمیشہ راستہ مل جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp